لاہور شہر کے ادبی ،ثقافتی اور جمالیاتی افق پر جگمگانے والے روشن ستارے شعیب بن عزیز، شب وروز کے نامہربان سکوت میں جکڑے دوستوں کیلئے ایسی محفلوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں،جہاں زندگی کی اْڑان پر روٹین کے دائرے کا جبر نافذ نہ ہو ، ایک ڈگر پر چلتے چلتے تھکے اور اْکتائےلوگوں کیلئے حیرت کی کوئی انوکھی کہانی یا مقام میسر ہو، قہقہوں کے ذریعے چہکنے کا موقع تلاشتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نےلاہور کی دھڑکن میں سمائے بے مثل شاعر ناصر کاظمی کے گھر میں بہت عمدہ شاعر مقسط ندیم کے اعزاز میں محفلِ دوستاں برپا کی۔ پچیس کے قریب دوست بہت اشتیاق اور عقیدت سے ناصر کاظمی کے دولت کدے پر حاضر ہوئے۔ عطا ء الحق قاسمی صاحب نے جس تقریب کی صدارت کی اس میں پرتکلف چائے کے علاوہ سب کا زیادہ وقت ان درودیوار کو دیکھنے اور ان سے ہم کلامی میں صرف ہوا جنھوں نے ناصر کاظمی کی پرچھائیں اور لمس سنبھال رکھا تھا ۔سب ایک عجیب تجربے سے گزر رہے تھے۔
ناصر کاظمی کے بیٹے حسن کاظمی تمام مہمانوں کو گھر کے مختلف حصے اور ناصر کاظمی کے استعمال میں رہنے والی اشیاء دکھا رہے تھے، اپنے والد والدہ اور بھائی باصر کاظمی سے جڑی بچپن کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے ،ہر طرف کسی مانوس خوشبو کا احساس بکھرا ہوا تھا ، شاید وہ بھی وہیں کہیں ہوں جنہیں ہم یاد کر رہے تھے۔
یقیناً ناصر کاظمی کی روح بھی وہاں موجود تھی کہ روحیں کب مرتی ہیں۔بہت بڑے شاعر کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر وقت الٹا چل پڑا اور ساٹھ ستر سال پیشتر کے منظروں کی ریل تخیل کی اسکرین پر نمودار ہونے لگی۔ کرشن نگر کتنا خوبصورت اور زندگی سے بھرا ہوا علاقہ تھا، اہل ادب اور شاہ کے سرکاری مصاحبوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔کشادہ گلیاں،بیلوں سے سجی دیواروں کے اندر رنگ برنگے پھل اور سایہ داردرختوں سے مہکتے بڑے بڑے صحنوں والے گھر کیا نظارہ پیش کرتے ہوں گے۔ گلیوں میں کیسی ریل پیل ہوتی ہوگی ،اونچی چھتوں پر بسنت رْت کا راج ہوتا ہوگا۔ ان گلیوں میں رنج و الم کے سکے جیب میں ڈال کر حساس شاعر بے احساس رویوں پرکڑھتا پھرتا ہوگا، وہ گلیاں آج بھی کشادہ ہیں مگر صحن عمارتوں میں بدل گئے ہیں۔ ہر گھر میں ایک آدھ درخت بھی موجود ہے مگر تنگ کیاریوں میں سہما سمٹا ہوا۔
کرشن نگر ایک اْجلی تاریخ اور اداس کردینے والی تہذیب کا نام ہے۔عجیب سا ہجر اور ملال کا تاثر اس فضا اور ماحول پر طاری محسوس ہوا، ایک کشش جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا محسوس ہوئی جیسے اس علاقے سے کوئی پرانے جنم کا ناطہ ہو، عزیز دوست شعیب بن عزیز کا شکریہ جس نے اس روحانی نگر میں مدعو کر کے وجدانی سرشاری کا موقع عنایت کیا۔ مختصر ملاقات تفصیلی دورے کے پیمان پر اختتام پذیر ہوئی۔
آج کے لاہور کا متحرک اور منفرد شاعر ناصر بشیر بھی اس علاقے کا باسی ہے کسی دن اس کی رہنمائی میں یہ ایک عہد جیسا منظروں سے بھرا علاقہ روح کی آنکھوں سے دیکھوں گی اور کھو گئی رتوں اور ہستیوں کا دیدار کروں گی۔اس ہفتے حلقہ اربابِ ذوق میں پنجابی اور اردو زبان کے منفرد شاعر زاہدہما کے ساتھ شام کا اہتمام کیا گیا، زاہد ہما کی پنجابی نظمیں اور غزلیں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ان کی نظم فکری اور حِسیاتی سطح پر تجربے سے گزرتی ہے مگر شعوری کاوش احساس میں یوں رچی ہوئی ہے کہ شعریت کا حسن ماند پڑنے کی بجائے مزید جگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔ زاہد ہما کا زیادہ کلام پنجابی میں ہے ، تاہم اردو شاعری میں بھی ندرت کا رنگ توانا ہے۔زاہد ہما کی اردو غزلیں پڑھیں اور لطف لیں۔
کیا تھا جو دِکھایا جا رہا ہے
مِرا لکھا سنایا جا رہا ہے
مِری تعمیرِ نو ہوگی کسی دن
اِسی باعث گِرایا جا رہا ہے
کہاں دیوار اٹھے گی کہاں در
ابھی نقشہ بنایا جا رہا ہے
برابر کے اندھیرے بانٹنے کو
دِیا ہر اِک بجھایا جا رہا ہے
گِرائیں گے گڑھے میں بھی یقیناً
ابھی ہانکا لگایا جا رہا ہے
… … … … … …
خاک میں کنگری لگاتا ہوں
خود کو یوں نوکری لگاتا ہوں
کام دفتر میں کچھ نہیں میرا
میں فقط حاضری لگاتا ہوں
خون روتا ہوں اور اس پر
تہمتِ شاعری لگاتا ہوں ،
چائے، سگریٹ، محبتیں، سوچیں
ایک سے دوسری لگاتا ہوں
ہے کوئی چلنے والا ساتھ میرے
اک صدا آخری لگاتا ہوں