• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اسمبلی: کراچی کے مسائل پر ایم کیو ایم نے سوالات اٹھا دیے

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

سندھ اسمبلی کے اجلاس میں رکنِ ایم کیو ایم عامر صدیقی نے کراچی میں ٹریفک کی صورتِ حال پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا۔

عامر صدیقی نے مطالبہ کیا کہ شہر کی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام بڑھ گیا ہے، شہری گھنٹوں اس میں پھنسے رہتے ہیں، ٹریفک جام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی ٹریفک کو کئی بار کہا ہے لیکن اب وہ فون بھی نہیں اٹھاتے، ٹریفک جام کے دوران ٹریفک پولیس اہلکار بھی نظر نہیں آتے۔

اس مسئلے پر وزیرِ داخلہ سندھ ضیاء لنجار نے کہا کہ جن سڑکوں کی آپ نے بات کی وہاں سڑکوں کی حالت ٹھیک نہیں، کام چل رہا ہے، لائنیں تبدیل ہو رہی ہیں، ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے لیکن جب تک ترقیاتی کام جاری ہیں لوگوں کو زحمت ہو گی۔

سندھ اسمبلی اجلاس میں محکمۂ محنت و انسانی وسائل سے متعلق وقفۂ سوالات و جوابات کے دوران ایم کیو ایم کے رکن صابر قائم خانی نے بتایا کہ عبدالباسط چھوٹی عمر میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کتنی ہے؟ اگر اس حوالے سے رپورٹ نہیں کیا جاتا تو کتنی فیکٹریز چیک کی گئی ہیں؟

اس پر وزیرِ محنت شاہد عبدالسلام تھہیم نے کہا کہ سوال پوچھیں تقریر نہ کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ کم سے کم تنخواہ پر عمل کروانا ہماری ذمے داری ہے، اس پر عمل کروانے کے لیے ہمارے افسران فیلڈ میں موجود ہیں۔

ایم کیوایم کے رکنِ اسمبلی عبدالباسط نے سوال کیا کہ یونین کیسے رجسٹر  ہوتی ہے اور حکومت یونین کو کیسے سپورٹ کرتی ہے؟

وزیرِ محنت شاہد عبدالسلام تھہیم نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قوانین کے تحت یونین رجسٹرڈ ہوتی ہے، این آر سی اور سندھ میں بھی رجسٹریشن ہوتی ہے، انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت بھی یونین رجسٹریشن ہوتی ہے، یونین کو فنڈز ہم نہیں دیتے۔

ایم کیو ایم کی رکنِ اسمبلی قرۃ العین نے کہا کہ 2019ء سے 2024ء تک کسی اسپتال یا ڈسپنسری کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ ڈسپینسریز اور اسپتال کس طرح کام کرتے ہیں؟ ڈسپنسریز میں دوائیاں فراہم ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر کیا سہولتیں موجود ہیں؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ڈسپنسریز میں ڈاکٹر اور دوائیاں موجود ہیں۔

اُنہوں نے بتایا کہ ورکر ویلفیئر بورڈ سے جو پیسے آتے ہیں وہی خرچ ہوتے ہیں۔

ایم کیو ایم کی رکنِ اسمبلی قرۃ العین نے پوچھا کہ آخری گورننگ باڈی کا اجلاس کب ہوا تھا؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے کہا کہ ابھی اجلاس کی تاریخ مجھے نہیں پتہ، معلوم کر کے تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا۔

ایم کیو ایم کے رکنِ اسمبلی راشد خان نے کہا کہ حیدرآباد میں بہت اچھا اسکول چل رہا ہے، اسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ لطیف آباد میں جو ڈسپنسری دکھائی گئی ہے وہ موجود ہی نہیں ہے۔

اس بات پر صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ڈسپنسری موجود ہی نہ ہو۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پروموشونز اور اپ گریڈیشن کا کام جلد ہی کرنے جا رہے ہیں۔

ایم کیوایم کے رکنِ اسمبلی ضیاءالحق نے کہا کہ ابھی تک کسی چیز کا صحیح جواب نہیں آیا، میرے حلقے میں جو اسپتال ہے وہاں کتے ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ولیکا اسپتال کی ابتر صورتِ حال ہے، رجسٹریشن کے لیے ادارہ کیا کام کر رہا ہے؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے کہا کہ ولیکا اسپتال میں لوگ روز ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں جہاں پر علاج نہیں ہوتا تو وہاں ہزاروں لوگ کیسے آتے ہیں؟

ایم کیوایم کے رکنِ اسمبلی شارق احمد نے کہا کہ سارے مزدور جناح اسپتال جاتے ہیں، لانڈھی میں کہاں پر اسپتال موجود ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے کہا کہ افسوس ہے کہ آپ کا تعلق کراچی سے ہے اور آپ نے لانڈھی میں سیسی کا اسپتال نہیں دیکھا۔

ایم کیوایم کے رکنِ اسمبلی نجم مرزا نے پوچھا کہ سندھ میں کتنے لیبر رجسٹرڈ ہیں؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے بتایا کہ ہمارے پاس 6 لاکھ مزدور رجسٹرڈ ہیں، مزید جو معلومات چاہئیں، میں فراہم کر دوں گا۔

ایم کیو ایم کی رکنِ اسمبلی فوزیہ حمید نے پوچھا کہ لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی کتنی یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کی؟

صوبائی وزیر شاہد عبدالسلام تھہیم نے جواب دیا کہ اگر شکایت آئی تو ضرور کارروائی کریں گے۔

پارلیمانی سیکریٹری بلدیات قاسم سراج نے اجلاس میں بتایا کہ شہر میں کچرا موجود تھا لیکن اب کافی چیزیں کلیئر ہو گئی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ سارا ملبہ ایک ادارے پر نہیں ڈالنا چاہیے، لوگ کچرا گلی میں پھینک دیتے ہیں، اپنے حلقے کے لوگوں کی تربیت بھی کریں۔

ایم کیو ایم کی رکنِ اسمبلی فوزیہ حمید نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کرپشن سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کرپشن ہوتی ہے، کیا وزیرِ تعلیم کے علم میں یہ بات ہے؟

وزیرِ تعلیم سندھ سردار شاہ نے جواب دیا کہ 2018ء میں ویریفکیشن کا ایک فلٹر لگایا گیا تھا، 8 لاکھ کے قریب ملازمین کے خاندان بینیفشری تھے۔

قومی خبریں سے مزید