تحریر:سیّد اقبال حیدر…فرینکفرٹ بادِ اجل نے ایک اور ادبی چراغ گل کر دیا ، اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ذی فہم ادیب،صحافی اور دانشور عارف نقوی اللہ کو پیارے ہو گئے کس کو معلوم تھا1934میں سرزمین لکھنؤ کے افق پر طلوع ہونے والا یہ ادبی ستارہ نومبر2024کوبرلن جرمنی کے قبرستان کی خاک اوڑھ کر سو جائے گا۔ عارف نقوی کا انتقال علمی و ادبی دنیا کیلئے ایک سانحہ ہے، اس وقت دنیا کے ادبی منظر نامے پر ان جیسا مشترکہ تہذیب کا علمبردار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا،ہند و پاک کی سیاسی نفرتوں کو ختم کرنے میں بھی عارف نقوی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں،آپ زندگی بھر قلم کے سپاہی بنے رہے آپ کی آنکھیں ہر ایک کے غم میں اشکبار اور سب کی خوشیوں پر مسکراتی تھیں۔آپ ترقی پسنددانشوروں کی اگلی صف میں سے تھے آپ کی ذہانت، اردو ادب سے گہری وابستگی نے کئی نسلوں کے ذہن کو سنوارنے میں اہم کردار کیا ہے۔آپ اپنی تحریرں میں ایک انقلابی تھے اور عام آدمی کے مقصد کے لئے لکھتے تھے اور عام انسانوں کی نبض بھی پہچانتے تھے۔اپنی ادبی خدمات کی وجہ سے آپ اپنے بے شمار مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ عارف نقوی کی قد آور شخصیت اردو ادب میں بے مثال تھی ان کے اٹھ جانے سے اردو ادب کا جتنا زبردست نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کے امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیںآتے وہ نہ صرف اعلیٰ معیار کے شاعر تھے بلکہ ذی فہم ادیب محقق‘اداکاراور ڈرامہ نگاری میں بھی اپنا منفرد اسلوب رکھتے تھے۔آپ نے جرمنی میں اسٹیج ڈرامہ اور کیرم بورڈ کے کھیل کو بھی متعارف کرایا،آپ کی شخصیت میں ایک خاص طرح کی دلنوازی اور کشش تھی جو آپ کی مقبولیت کی ضامن تھی۔ عارفؔ نقوی کا انتقال اردو دنیا کا عظیم نقصان ہے اردو نے ایک عملی ادیب و شاعر کھو دیا اور امن کا پیامبر رخصت ہو گیا۔آپ انسانیت کے ساتھ وابستگی کے شاعر تھے اور جہاں بھی آپ کو انسانیت پابجولاں نظرآتی آپ جذباتی شعریت سے مغلوب ہو جاتے اور اس کا تجزیہ شاعری میں کرتے تھے عارفؔ نقوی غزل و نظم کے پیکر میں آتش سیال کو ترقی پسندانہ اندازِ فکر میں سمونے والے شاعر تھے ،کسی بھی مشاعرے میں آپ کی شمولیت کومشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھاجاتا تھا۔خصوصی طور پر میری تنظیم ہیومن ویلفیئر ایسوسی ایشن و حلقہ ٔ ادب جرمنی کے زیرِ اہتمام ہائیڈل برگ دریائے نیکر کے کنارے ہونے والی علامہ محمد اقبال کے حوالے سے فرشی شعری نشست اور دیگر فرینکفرٹ میں ادبی محفلوں میں آپ نے اپنائیت کے انمٹ نقوش چھوڑے آپ جب بھی فرینکفرٹ تشریف لاتے آپ کا قیام میرے گھر پر رہتا اور آپ ماضی کی یادوں میں گم ہو کر کیفی، سردار ، مجروح،مجاز اور ساحرکے ساتھ بیتے ہوئے قصّے سناتے 1959میں آپ نے اپنی صحافت کا آغاز سجاد ظہیر کے ساتھ اردو کے ہفتہ وار ’’ عوامی دور‘‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کیا سجاد ظہیر مرحوم جن کا ذکر اکثر ’’بنے بھائی ‘‘ کہہ کرکرتے تھے،عارف نقوی معروف شاعر ’’مجازؔ‘‘ کی 4اور 5دسمبر 1955کی درمیانی رات نشے کی حالت میں لال باغ لکھنؤ میں آنکھوں دیکھی موت کا ذکر انتہائی افسردگی سے کرتے ، معروف ادبی شخصیت شارپ ردولوی کے انتقال پر بہت افسردگی کے عالم مجھے فون کیا اور بھرائی آواز میں تعزیت کی،آپ نے چند برس پہلے احمد شاہ کی دعوت پر آرٹس کونسل کراچی کی سالانہ ادبی کانفرنس میں بھی شرکت کی،امسال مجھے اور عارف نقوی مرحوم کو آیت اللہ عقیل الغروی کی دعوت پر لندن میں شارب ردولوی مرحوم اور نواب زادہ محمود آباد کی یاد میں تقریب اور مشاعرے میں جانا تھا مگر ہم دونوں طبعیت کی ناسازی کے سبب نہ جا سکے ،میری عارف نقوی کے ساتھ40سالہ ادبی رفاقت اور دوستی تھی فون پر اکثر بات ہوتی،آپ کی’’ کتاب‘‘ سے محبت کا یہ عالم تھا انتقال سے دس روز قبل 90سالہ عمر میں آپ 18اکتوبر فرینکفرٹ میں ہونے والے ’’عالمی کتابی میلے‘‘ میں 9گھنٹے کا سفر کرکے مختصر وقت کیلئے آئے اور اپنی ذوجہ کی طبیعت کی ناسازی کے سبب اسی روز واپس برلن چلے گئےجن ’’محبان اردو‘‘ کے وجود سے اردو ادب کی آبرو قائم ہے تیزی سے دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں میں دعا گو ہوں کہ پروردگار عالم عارف نقوی مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی جرمن بیوی اور بیٹی کو صبر و سکون عطا فرمائیں۔