گزشتہ تین دہائیوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور سندھیوں میں ایک عجیب قسم کالو اینڈ ہیٹ ریلیشن شپ یا محبت و نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ جب میں الطاف حسین اور سندھیوں کے مابین رشتے کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد سندھ میں رہنے والے سندھی بولنے والے سندھیوں اور اردو بولنے والے سندھیوں کے درمیان رشتوں کی بات نہیں کر رہا۔ الطاف سندھ کی ان دو مستقل آبادیوں میں سے ایک کو پانچ ہزار سالہ سندھی اور دوسری کو چلو ستّر سالہ پرانے سندھی کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں۔
حال ہی میں الطاف حسین کا سندھ اور سندھیوں سے جذباتی لگائو پھر عود کرآیا جب اگلے روز انہوں نے اپنی کتاب فلسفہ ٔمحبت کے سندھی ترجمے کی رونمائی کی، جلسہ نما تقریب سے حیدرآباد سندھ میں لندن سے براہ راست بذریعہ ٹیلیفون خطاب کیا ہے۔ سندھی قوم پرست رہنما اور کبھی تقریر و تحریر کے جادوگر عبدالواحد آریسر نے محبت اور الطاف حسین کے فلسفہ محبت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ محبت کینھجر کے کناروں پرنوری کے پائوں کی پازیب کی آواز کا نام ہے لیکن الطاف حسین کی کتاب میں محبت تباہ کن ہے۔ عبدالواحد آریسر نے سندھی قوم پرستوں اور نوجوانوں کی کئی نسلوں کو سندھ اور سندھی قوم پرستی کے رومان میں مبتلا کئے رکھا تھا اس پر پھر کبھی سہی۔ عبدالواحد آریسر ان گنے چنے سندھی قوم پرست رہنمائوں اور دانشمندوں میں سے ہیں جو سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان حالات کس طرح کے بھی ہوں محبت و اتحاد کے بڑے داعی ہیں۔ سندھی مہاجر لسانی فسادات کی جلتی ہوئی آگ کے دنوں میں ایک دفعہ مولاناابوالکلام آزاد کے اس سب سے بڑے مداح اور عالم دین نے کہا تھا کہ اگر فرشتہ بھی آکر ان کے کان میں سندھی اور مہاجروں کے درمیان جنگ کا کہے تب بھی وہ انکار کردیں گے۔ بہرحال عام طور پر سندھ میں عارضی ہوں کہ مستقل رہنے والی آبادیاں سب ایک نہ دوسرے سمے الطاف حسین کے اسی فلسفہ محبت کے مارے ہوئے یا اسی زلف کے اسیر بن چکے ہیں۔ سندھی بولنے والے سندھیوں اور حیدرآباد کے اردو بولنے سندھیوں کو اس محبت کی تڑپ کی زیادہ خبر ہے۔
حیدرآباد ہی خوش قسمتی یا بدقسمتی سے سندھ کا وہ شہر ہے جہاں کے سندھیوں اور اردو بولنے والوں نے الطاف حسین اور سندھ کے درمیان اس نفرت اور محبت کے رشتے کا سب سے زیادہ ثمر چکھا ہے۔ تحقیق سندھ میں رہنے والے ہر ذی انسان کو الطاف حسین کے فلسفۂ محبت کے میوے کا ذائقہ چکھنا ہے۔ سب سے پہلے پنجابی، پھر پٹھان اور پھر سندھی اور ان کے ساتھ اردو بولنے والے اپنی اپنی باری پر الطاف حسین کے فلسفہ محبت کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔اسی طرح وہ کئی بار سندھیوں کی طرف شاخ زیتون بڑھا چکے ہیں لیکن کن قوتوں کی سازشوں سے ان کی شاخ زیتون نہ جانے کیوں بندوق میں بدل جاتی ہے۔
الطاف حسین نے اپنی فلسفہ ٔمحبت کی رونمائی کے موقع پر یہ بھی کہا کہ سندھی ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر تو دیکھیں وہ سندھ کو شاہ لطیف کے دور میں واپس لے جائيں گے۔
لاشک شاہ لطیف سندھ کا عظیم صوفی اور شاعر تھا، ہے اور رہے گا کیونکہ وہ سندھ کے ماضی حال اور مستقبل کے بھی مستقبل کا شاعر ہے لیکن شاہ لطیف کا دور سندھ اور برصغیر کیلئے کوئی آئیڈیل دور نہیں تھا۔ یہ زوال پذیر مغل سلطنت اور طوائف الملوکی کا دور تھا اسی دور میں سندھ کے صوفیوں کے سرتاج شاہ عنایت اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ شاہ لطیف کی عمر اس وقت نوجوانی کی تھی اور انہوں نے شاہ عنایت اور جھوک کے سانحے پر جو مغل شہزادے فرخ سیر اور مقامی پلیجو زمینداروں کی سازش تھی پر اپنے رسالے کا بہترین اور المیاتی سُر’’کیڈارو‘‘ بھی تخلیق کیا تھا۔ سندھ دہلی کو خراج ادا کرتا تھا اور سندھ پر کٹر کلہوڑا حکمرانوں کی حکومت تھی۔ ہاں شاہ لطیف کی شاعری اور ان کی شخصیت آج تک سندھ کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہے کہ وہ سندھ کے حصے میں آئی ہے۔
شاہ لطیف کی درگاہ کے بہت سارے سجادہ نشینوں میں سے ایک چشم چراغ بھی فلسفہ محبت کی تقریب میں موجود تھے۔ لیکن اس مرتبہ کی طرح یہ کم مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ الطاف حسین کے ایسے جلسوں میں نامور سیاسی کارکنوں اور دانشوروں، شاعروں نے شرکت کی ہو جو اس مرتبہ ان کے فلسفۂ محبت کے سندھی ترجمے کی رونمائی کے موقع پر جمع ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ سندھ کے پرانے اور اپنے اپنے شوق و شعبوں میں ناکام عاشق تھے لیکن زیادہ تر سچے اور مخلص۔ اس میں سابق سینیٹر اور مصنف یوسف شاہین بھی تھے، پروفیسر قلندر لکیاری بھی تھے، سندھ کے شعلہ شبنم شاعر حلیم باغی بھی شریک تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ نے دانشورانہ سطح پر الطاف حسین کو سنجیدہ لینا شروع کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں زیادہ تر لوگ نہ سیاست کے بھوکے تھے اور نہ ہی ایم کیو ایم کے انتخابی ٹکٹوں کے۔ مجھے فلسفہ محبت کے مترجم کا پتہ نہیں کہ وہ ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت سی پارٹیاں بدلتے رہے ہیں۔ کہنے دیجئے کہ الطاف حسین کم از کم پاکستان کے وہ واحد سیاستدان ہیں جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سب سے زیادہ ووکل اور نڈر نکلے ہیں۔ پھر وہ کوئی اقلیتی فرقہ ہو ہندو، عیسائی ہوں کہ شیعہ سب سے ہونے والی ناانصافیوں اور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وہ کھل کر بولے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایم کیو ایم کی میئرشپ تلے بلدیہ حیدرآباد کے جب خاکروبوں کو کئی ماہ تنخواہ نہیں ملی تھی تو ہریجن خاکروبوں کا ایک وفد اپنی شکایت لیکر الطاف حسین کے پاس نائن زیرو گیا تھا تو انہوں نے اس وفد کو کہا تھا ’’میں اس ملک میں سب سے بڑا ہریجن ہوں، میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔
اسی تقریب میں الطاف حسین نے سندھ میں سندھی حکمرانوں کو سندھ کی ایسی موجودہ درگت بنانے پر بھی خوب لتاڑا، لیکن حیرت ہے کہ ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں کہ الطاف حسین فرما رہے تھے کہ سندھ میں مقامی کسی سندھیوں کو فوائد کے علاوہ کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ انہوں نے اب کی بار یہ سندھ کے شہروں کی حالت زار پر سندھیوں کی حکومت میں سندھ کے شہروں کی حالت پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھی بولنے والے سندھیوں کی حکومت تھی یا اردو بولنے والے سندھی شہری وڈیروں کی ہر دور میں سندھی بولنے والے اور اردو بولنے والے بیچارےسندھی عوام مفلوک الحال ہی رہے۔
اگر ان کے فلسفۂ محبت میں سندھ کے لوگوں کے درد کا کوئی درمان ہوتا تو سندھ کے یہ حالات نہ ہوتے جو اب ہیں۔ سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان حق پرست الیون اور شاہ لطیف الیون کے خونی میچ نہ ہوتے۔ تیس ستمبر انیس سو اٹھاسی اور یکم اکتوبر اٹھاسی والی بڑی دہشت گردیاں نہیں ہوتیں۔ سندھ کو سب سے بڑی سزا ان دو مستقل آبادیوں کے آپس میں محبت و میل جول کی دی گئی ہے۔ یقین جانئے جب بھی یہ دونوں مستقل سندھی اور اردو بولنے والے سندھی آپس میں بننے پائے ہیں ان کے درمیان پھر خون کے دریا پاٹ دیئے گئے ہیں۔ جام صادق علی سے لیکر ارباب غلام رحیم تک جیسے یک نشئی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بھی حکومتوں میں شامل ہوکر سندھ کی حکومتوں میں ساجھے داری کی۔ دونوں اطراف سے لگائے گئے ماضی کے زخم ایسے گہرے ہیں اگر الطاف حسین خود شاہ لطیف بن جائيں تب بھی اکثر سندھی ان پر اعتبار نہیں کریں گے، یہ ایک المیہ ہے۔ ان میں سندھ کو تقسیم کرنے کی طاقت تو ہے سندھ کو یکجا رکھنے کی صلاحیت نہیں۔
الطاف حسین کا فلسفہ محبت سچ ثابت ہو سکتا ہے اگر ان کی اور سندھی وڈیروں اور دانشوروں کی نظر آنے والے انتخابات اور بننے والی حکومتوں پر نہیں سندھ کی آنےوالی نسلوں پر ہوں۔اگر شاخ زیتون کو بندوق میں بدلنے نہ دیا جائے۔ اگر نوری کے پیروں کی پازیب کی ہی آواز کینجھر کے کنارے ہوں نہ کہ بندوق و بارود کی آواز۔ بڑا ہے درد کا رشتہ کہ سندھی اور اردو بولنے والے نوجوان سیاسی کارکنوں کی لاشیں پھینکی جار ہی ہیں۔