• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاتلانہ حملے، مقدمات اور سیاسی انتقام، ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن سیاسی واپسی کیسے ممکن ہوئی

یقینی طور پر یہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کی سب سے ڈرامائی داستان ہے۔ وائٹ ہاؤس یعنی امریکی صدارت چھوڑنے کے چار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدر کا عہدہ سنبھالنے کو تیار ہیں، کیونکہ کروڑوں امریکیوں نے انہیں ووٹ دے کر دوسرا موقع دیا ہے۔ ان کی صدارتی انتخابی مہم کو تاریخی طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس دوران دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے اور انتخابی عمل سے چند ماہ قبل اُن کے اصل حریف اور موجودہ صدر جوبائیڈن مقابلے سے دستبردار ہو گئے۔ اگرچہ حتمی ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے، لیکن امریکہ کے صدر کے انتخاب کے لیے اہم سمجھی جانے والی ریاستوں میں ٹرمپ کے حق میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا ہے۔ اپنا حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کی نظر میں معیشت اور امیگریشن اہم ترین مسائل اور موضوعات تھے۔ انہیں ایک دور کی ناکامی اور زوال کے بعد اب شاندار کامیابی ملی ہے۔ انہوں نے 2020کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں وہ جو بائیڈن سے ہار گئے تھے اور عہدے پر برقرار رہنے کے لیے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ان کے خلاف آج بھی تحقیقات جاری ہیں۔ انہیں6جنوری 2021کو یو ایس کیپٹل ہل پر حملے کے لیے لوگوں کو اکسانے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ وہ امریکہ کی تاریخ کے ایسے پہلے صدر بھی ہوں گے کہ جنہیں کاروباری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے جرم میں قصوروار بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات شاید کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وہ تقسیم پیدا کرنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اشتعال انگیز بیان بازی کا سہارا لیا جس میں مضحکہ خیز جملے اور لطیفے سامنے آئے اور نہ صرف یہ بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکیاں بھی اُن کی انتخابی مہم میں شامل رہیں۔ وہ بیانیہ جس نے امریکہ کا دل جیت لیا:جب ٹرمپ کی بات ہوتی ہے تو بہت کم لوگوں کے پاس کوئی درمیانی راستہ ہوتا ہے۔ اس انتخابی مہم کے دوران میں نے جن ووٹروں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ ٹرمپ ’’اپنا منہ بند رکھیں‘‘۔ اس کے باوجود ان ووٹروں کے لیے سب سے اہم بات ٹرمپ کا وہ سوال تھا جو انہوں نے بار بار مہم کے دوران اٹھایا کہ ’’کیا دو سال پہلے کے مقابلے میں آپ کی مالی حالت بہتر ہے؟‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بہت سے لوگوں نے مجھ سے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں ایسا لگتا تھا کہ اُن کے گزشتہ دورِ حکومت میں معاشی حالات بہت بہتر تھے اور اب وہ مُشکل سے ہی اپنی ضروریات پوری کر پا رہے ہیں۔ اگرچہ مُلک میں افراطِ زر یا مہنگائی کی وجہ معاشی پالیسی نہیں بلکہ کورونا جیسے بیرونی مسائل رہے تاہم لوگ جو بائیڈن کی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ رائے دہندگان میں غیر قانونی تارکینِ وطن سے متعلق بھی گہری تشویش پائی جاتی تھی کہ جن کی شرح میں جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ جن لوگوں سے میری بات ہوئی، اُن کی جانب سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ تارکین وطن امریکی عوام کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی جانب سے ایسے ہی خیالات کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔ عام لوگ صرف ملکی سرحدوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ سب سے پہلے:’’امریکہ سب سے پہلے‘‘ ٹرمپ کے نعروں میں سے ایک تھا جس نے واقعی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے والوں کے دلوں کو متاثر کیا۔ میں نے بائیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یوکرین میں جاری جنگ سے متعلق یہ شکایات کرتے ہوئے سنا کہ جنگ میں جھونکا جانے والا پیسہ امریکہ میں بہتر انداز میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں آخر کار انہوں نے کملا ہیرس کو ووٹ نہیں دیا جنہوں نے جو بائیڈن کے نائب کے طور پر چار سال تک کام کیا۔ عام لوگوں کے خیال میں کملا کے جیت جانے سے حالات ویسے ہی رہتے، لیکن وہ تبدیلی چاہتے تھے۔ یہ شاید اس الیکشن کی ایک عجیب بات ہے کہ تبدیلی کا علمبردار امیدوار چار سال پہلے خود برسراقتدار تھا۔ لیکن اس وقت میں اور آج کے وقت میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ 2016میں جب ٹرمپ اقتدار میں آئے تو وہ سیاسی میدان میں نووارد تھے اور کچھ عرصے تک انہوں نے ایسے تجربہ کار سیاسی مشیروں اور عملے کی مدد حاصل کی جنہوں نے ایک جانب تو ان کو بہت کچھ سکھایا لیکن دوسری جانب انہیں کھل کر کچھ بھی کر گزرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بار لگتا ہے کہ ٹرمپ روایتی طریقے سے کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کے بہت سے سابق مشیروں اور عملے کے اراکین نے انہیں ’’جھوٹا‘‘، ’’فاشسٹ‘‘ اور ’’نااہل‘‘ قرار دیا اور تنبیہ کی کہ اگر ٹرمپ نے وفاداروں کو ہی اپنے ساتھ رکھا، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، تو انہیں انتہا پسندانہ خیالات پر عمل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ صدارت ختم ہو جانے کے بعد ٹرمپ کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن میں کیپٹل ہل سے جڑے مقدمات بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی امور کی دستاویزات اور ایک پورن سٹار کو دئیے جانے والے پیسوں پر بھی انہیں قانونی مشکلات کا سامنا رہا۔ تاہم سپریم کورٹ نے جب فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ کو بطور صدر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات سے استثنیٰ حاصل ہے، اس کے بعد اب کسی کے لیے بھی انہیں اگلے دور صدارت میں قانونی مشکل سے دوچار کرنا نہایت مشکل ہو گا۔ بطور صدر ٹرمپ محکمہ انصاف کو حکم دے سکتے ہیں کہ ان کے خلاف تمام الزامات پر کارروائی ختم کر دیں تاکہ انہیں سزا کا ڈر نہ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کے پاس یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ کیپٹل ہل کے معاملے میں سزا یافتہ سیکڑوں افراد کو معافی دے سکتے ہیں۔ امریکی ووٹرز کو امریکہ کی دو مختلف تصاویر پیش کی گئی تھیں۔ ٹرمپ نے لوگوں کو بتایا کہ ان کا ملک ناکام ہو رہا ہے جسے صرف وہی دوبارہ سے عظیم ملک بنا سکتے ہیں۔ دوسری جانب کملا ہیرس نے موقف اپنایا کہ ٹرمپ منتخب ہوئے تو امریکی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گا۔ ایسا ہو گا یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لوگوں کے خدشات دور نہیں ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے دور صدارت میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے تھے۔ اب امریکہ اور دنیا دیکھیں کہ ٹرمپ کیا حاصل کر سکتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید