تحریر: پرویز فتح…لیڈز اسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ساوتھ ایشیائی ملک سری لنکا کے عوام نے مستقبل کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ملک کے پہلے سوشلسٹ صدر کا انتخاب کر کے تاریخ رقم کر دی۔ جنتا ویمکتی پیرومانا (جے وی پی) اور نیشنل پیپلز پاور (بائیں بازو اور ترقی پسند تنظیموں کے اتحاد) کے رہنما انورا کمارا ڈسا نائیکے نے 21ستمبر کو سری لنکا میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔ انہوں نے ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں 5740179ووٹ (42.3فیصد) حاصل کیے جو کہ 2019ء میں ان کے حاصل کیے گئے 418553ووٹوں (3.16فیصد) کی نسبت حیران کن اضافہ تھا۔ ان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں یہ بڑھ کر 55.89فیصد ہو گئے جبکہ رنر اپ نے 44.11فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سری لنکا کی عوام دوست قوتوں کے لیے یہ ایک تاریخی فتح ہے، کیونکہ وہاں پہلی بار ایک بائیں بازو کے رہنما نے ملکی صدر کا انتخاب جیتا ہے۔ تاریخی طور پر مسلحہ جدوجہد کرنے والے سری لنکن سوشلسٹوں (ماؤ نواز مارکسوادیوں) نے اپنے ملک اور پسی ہوئی عوام کو سامراجی تسلط اور بالادست طبقات کے استحصال سے نجات کیلئے معروضی حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے بیلٹ کا راستہ اپنایا تو عوامی حمایت سے ملک کے اعلیٰ ترین صدارتی عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، نو منتخب سوشلسٹ صدر انورا کمارا ڈسا نائیکے نے 23ستمبر 2024کو ملکی صدارت کا حلف اٹھایا اور ایک ’’حقیقی عوامی‘‘ حکومت چلانے کا اعلان کر دیا۔ سری لنکا میں بائیں بازو کے اتحاد نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) ملک کی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک ہے جس میں 21ترقی پسند سیاسی جماعتیں، ٹریڈ یونینز، طلباء و نوجوانوں کے گروپ، اساتذہ و دیگر پروفیشنلر کی انجمنیں، خواتین کی تنظیمیں اور انسانی حقوق و سول سوسائیٹی کے گروپ شامل ہیں۔ یہ اتحاد 2019میں سری لنکا میں ایک متبادل ترقی پسند سیاسی پلیٹ فارم کے سلسلے میں بلائے گئے اجلاس اور بحث و تمحیض کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ این پی پی کا بنیادی مقصد معاشرے کی بنیادی سطحوں، یعنی گلی محلوں، فیکٹریوں اور کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والے عام عوام کی سطح پر ایک مضبوط تحریک کی بنیادیں رکھنا تھا، جو ملک میں بنیادی اور ضروری سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کو جنم دے سکے جو ایک ایسی معاشی جمہوریت کے قیام کے لیے بنیادیں فراہم کرے، جہاں معیشت میں عوامی شرکت کے ساتھ ہر کسی کے لیے معاشی فوائد اور ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ہو اور ملکی عوام کو مضبوط سماجی تحفظات کے ساتھ ایک جامع اور حقیقی جمہوری سری لنکا کی شناخت بھی اُبھر کر سامنے آئے۔ انورا کمارا ڈسا نائیکے کی قیادت میں بننے والے بائیں بازو کے اس اتحاد کی 73 رکنی قومی ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مذہب، رنگ، نسل اور جنس سے پاک وسیع تر نمائندگی شامل ہے۔ اس اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ این پی پی کے ذریعے سری لنکا میں عوامی اتحاد اور خوشحالی کی نئی عوامی بنیادیں فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا وژن ایک ایسا متحدہ مستقبل ہے جہاں معاشی ترقی، سماجی بہبود، اور ماحولیاتی پائیداری ساتھ ساتھ چلتی ہوں۔ اُن کا مقصد عام ملکی افراد کو بااختیار بنانا، محنت کش و کام کار عوام کو مضبوط کرنا اور ملک میں جدت طرازی کو آگے بڑھانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے دیش کو ایک بامقصد تعلیم کی بنیادوں کو استوار کرنا ہے تا کہ پائیدار عوامی وابستگی کے ذریعے تمام نسلوں کے لیے ایک خوشحال کل کو یقینی بنایا جا سکے اور عوام کے مستقبل کو ایک نئی شکل دینے کے اس سفر میں وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہ پائے۔ بائیں بازو کے اس اتحاد کی بنیادیں سماجی انصاف، معاشی جمہوریت، یکجہتی، باہمی تعاون، پائیداری اور کرپشن فری گورننس پر رکھی گئی ہیں۔ اس کا مشن سماجی انصاف پر مرکوز ہے اور وہ ایک ایسے معاشرے کا تصور رکھتے ہیں جہاں سب کے لیے مساوی مواقع اور مساوی نتائج حاصل ہوں۔ ان کا مقصد ایک ایسا سماج اور ایسی دنیا کے قیام کے لیے ہے جہاں طبقات، نسل، مذہب، زبان، ذات، مقام، یا جنس کے فرق لوگوں کی زندگی کی تکمیل اور مساوی شرکت میں رکاوٹ نہ بنیں۔ نومنتخب صدر انورا کمارا ڈسا نائیکے مزدور طبقے کے والدین کے بیٹے ہیں، جنہوں نے اپنے آبائی شہر کے عام سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور انتھک محنت کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخل ہونے والے تھمبو ٹگاما کے پہلے طالب علم بن گئے۔ یونیورسٹی میں طلباء سیاست نے انہیں سرگرم انقلابی بنا دیا اور انہوں نے 1987 میں جے وی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسی طلباء سیاست نے انہیں ملکی سطح کی سیاست سے متعارف کروایا اور ایک منجھے ہوئے انقلابی بنا دیا۔ اُن کی حمایت میں 2022کے ملکی بحران کے وقت سے مسلسل اضافہ اور صدارتی انتخابات میں جیت ان کی پارٹی کی عوامی جدوجہد میں زبردست شمولیت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سری لنکا کے عوم ادارہ جاتی و سیاسی بدعنوانیوں، پانی، بجلی، ایندھن، گیس، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کے فقدان سے تنگ آچکے تھے۔ گذشتہ سات دہائیوں سے مسلط کی گئی تباہ کن معاشی پالیسیاں ملکی زراعت کی تباہی، کسانوں کے استحصال، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی کا باعث بن گئی تھیں۔ وہ اس وقت کے صدر گوتابایا راجا پاکسے کی قیادت میں چلنے والی حکومت کے خلاف احتجاج میں نکلے تھے۔ ان مظاہروں سے عوامی غصہ پھٹ گیا اور صدر راجا پاکسے کو استعفیٰ دے کر بھاگنا پڑا۔ سیاسی میدان میں ڈسا نائیکے نے ایگزیکٹیو پریذیڈنسی، یعنی صدارتی نظام کو فوری طور پر ختم کرنے اور اختیارات عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا جو 1978سے رائج ہے۔ انہوں نے صدارتی حلف اُٹھانے کے دو روز بعد پارلیمنٹ کو فوری طور پر تحلیل کرنے اور 14نومبر کو ملک میں نئے عام انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے بدعنوانی اور نسل پرستی کے کلچر کو یکسر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وعدہ کیا۔ ان وعدوں نے عوام کی تائید حاصل کی ہے اور انہیں ملک کا ایک مقبول رہنما بنا دیا ہے۔ سری لنکا کے عوام نے ڈیسا نائیکے اور این پی پی کو تبدیلی کی تڑپ کے ساتھ، ان کی ایمانداری اور الیکشن مہم میں عوامی بہبود کی بنیادوں پر تازگی لانے پر ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ووٹ دیا ہے۔ اب جیتنے والوں کی باری ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر پورا کریں اور عوام کی امنگوں پر پورا اتریں۔ ہم ڈسا نائیکے اور جے وی پی کو نیک تمنائیں دیتے ہیں اور پوری امید رکھتے ہیں کہ وہ وعدہ کی گئی تبدیلی لائیں گے اور بائیں بازو کو مضبوط کریں گے۔ راقم کو یقین ہے کہ ڈسا نائیکے کی جیت اس یقین کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گی اور خطے کی سیاست پر گہرے اثرات اور سماجی تبدیلی کی نئی راہیں اجاگر کرے گی۔