• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم الامت، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبالؒ نے ملتِ اسلامیہ کی فلاح و بقا کے لیے ایسے افکارِ عالیہ پیش کیے جن کی روشنی میں افرادِ ملت اپنی اصلاح مؤثر طور پر کر سکتے ہیں۔ فکریاتِ اقبال میں خودی اور خودداری کا تصور نمایاں مقام کا حامل ہے جسے سادہ لفظوں میں انائے صادق کی نمود اور اظہارِ غیرت و فقر سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ 

اقبال کا تصورِ خودی جس کا مفہوم خود ان کے اپنے الفاظ میں ’احساسِ نفس‘ یا ’تعیینِ ذات‘ (Self Evaluation) ہے، اگر درست معنوں میں اپنا لیا جائے تو افرادِ قوم، تشکیلِ ملت میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے کے طور پر قومی و ملی خودداری کا حصول ممکن ہے۔ اقبال نے اثباتِ ذات کو محض انانیت کے بجائے حرکت و عمل سے وابستہ کیا اور عرفانِ ذات کے نتیجے میں ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ بننے کی ترغیب دلائی۔

اقبال کا خودی کا تصور غلط قسم کی توکل پرستی اور تساہل پسندانہ فروتنی وعاجزی کے برخلاف میدانِ زیست میں مسلسل سعی و کاوش کی نمود سے عبارت ہے۔ یہ فلسفہ اقبال کی تمام فکریات کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ہے جس کی آبیاری وہ کم و بیش چالیس برس تک کرتے رہے۔ یہی وہ تصور ہے جو دینی حوالے سے وحدت الوجودی تصوف کے عجمی و غیراسلامی پہلوؤں کا ایراد کرتا ہے اور فلسفیانہ سطح پر افلاطون جیسے فلاسفہ کی پیش کردہ خیالی دنیا کی نفی کر کے حقیقی و واقعی صداقتوں کا اثبات کراتا ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عملی زندگی میں خودی و خودشناسی قومی خودداری کے لیے ناگزیر ہے۔ انھیں خصائص کے باعث اقبال نے خودی کو نوعیت کے اعتبار سے ’نقطۂ نوری‘ قرار دیا اور یہ سرتاسر غیر مادی ہے۔ وجودِ انسانی میں یہ ایسا لطیف عنصر ہے جو نہ مادے سے پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی مادے کو تخلیق کرتا ہے لیکن اس کے باوجود مادے کو مسخر کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ 

چنانچہ اسی نسبت سے خودی کے لوازم و عناصر نوعیت کے اعتبار سے مادی نہیں بلکہ خالصتاً رُوحانیت و لطافت پر مبنی ہیں۔ اسی لیے تو اس نقطۂ نوری کا مقام فرد کے قلب میں ہے۔ ’’ساقی نامہ‘‘ میں اقبال لکھتے ہیں:

خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند

سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند

__________

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے

فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے

خودی قیدِ زمان و مکاں سے آزاد ہے، نہایت بے کراں ہے اور اپنی بے پایاں وسعتوں کے باعث کسی ایک مقام کی اسیر نہیں، لہٰذا یہ فیضانِ خودی ہے کہ صاحبِ خودی کا وجود بھی انھیں اوصاف کا حامل ٹھہرتا ہے۔ اس کے لیے مادی زندگی محض ’منزلِ اوّلیں‘ قرار پاتی ہے اور اسی سبب سے وہ ستاروں پر کمند ڈانے کی سعی و جستجو کرتا ہے۔ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:

یہ عالم یہ ہنگامۂ رنگ و صوت

یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت

یہ عالم یہ بت خانۂ شش جہات

اسی نے تراشا ہے یہ سومنات

یہ عالم یہ بت خانۂ چشم و گوش

جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش

خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں!

مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں!

تسخیر کائنات کے وصف کے باعث خودی تقدیر شکنی کی خصوصیت بھی رکھتی ہے اور ایک بابصیرت مسلمان اپنی تقدیر اپنے عمل سے بناتا ہے اور یہی قرآنِ حکیم فرقانِ حمید کی رُو سے مومن کی شان ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے اس نے سعی و کاوش کی۔ بشر کے لیے احکامِ الٰہی یہی ہیں کہ وہ کارزارِ حیات میں اپنا اشرف المخلوقات ہونا ثابت کرے۔ وہ ہرگز تقدیر کا زندانی نہیں ہے بلکہ تقدیر شکنی کی قوت (بصورت خودی) اسے عطا کی گئی ہے، علامہ فرماتے ہیں:

تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

__________

تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں

ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی

__________

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اقبال کے مطابق ایک خود شناس و خودنِگر فرد تسلسل سے تخلیق مقاصد میں سرگرم رہتا ہے اس لیے کہ خودی کی حیات تخلیق و تولیدِ مقاصد ہی میں پنہاں ہے۔ فرد جب مقاصدِ حیات سے اپنی زندگی کو معنویت بخشتا ہے تو اس کا شخصی نظم و ضبط ملّی وقار پر منتج ہوتا ہے۔ یوں نہ صرف وہ اپنی ذاتی زندگی کی مؤثر شیرازہ بندی کر کے اسے نصب العینی سمت عطا کرتا ہے بلکہ قوم و ملت کے لیے بھی حرکت و حرارت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ بغور دیکھیں تو یہی فرد کی تخلیق کا اصلی و حقیقی مدّعا ہے، اقبال لکھتے ہیں:

ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم

از شعاع آرزو تابندہ ایم

(ہم مقاصد کی تخلیق کے باعث حیاتِ ابدی پاتے ہیں اور یہ آرزوؤں کی شعاعیں ہیں جو ہماری زندگی کو تاب ناکی عطا کرتی ہیں)

زندگی در جستجو پوشیدہ است

اصلِ او در آرزو پوشیدہ است

(زندگی کی اصلیت سعی و کاوش میں پوشیدہ ہے، اس کی حقیقت آرزوؤں میں پنہاں ہے)

اقبال کے نزدیک صاحبِ خودی لمحۂ موجود سے استفادہ کرتا ہے اور ہر لحظہ اس امر سے آگاہ ہوتا ہے کہ اصلاحِ حال کا جذبہ ہی پُرکشش ماضی کی تشکیل کرتا ہے اور بالآخر روشن مستقبل کی ضمانت بنتا ہے۔ اقبال نے اسی لیے خودی کو لامتناہی قرار دیا اور زندگی کو پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ماپنے کی تلقین کی اور اس حقیقت سے آشنا کرنے کے لیے زندگی کو ہر لحظہ جاوداں، پیہم دواں اور ہر دم رواں قرار دیا۔ اسی تصورِ خودی کے تحت انھوں نے زمانے کو زنجیرِ ایام کہا جو سانسوں کے الٹ پھیر کا نام ہے، جو لامتناہی ہے اور اسی کی نسبت سے خودی بھی لامتناہی ہے۔ 

جبھی تو بقول اقبال ازل خودی کے پیچھے، ابد سامنے ہے، نہ کوئی حد اس کے پیچھے ہے، نہ سامنے ہے۔ چنانچہ احساسِ خودی کے نتیجے میں جو کارنامے ظہور میں آتے ہیں وہ ان اوصاف کے باعث ابدیت کے حامل ٹھہرتے ہیں اور یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ انسان، موت کے بعد بھی اپنے مقاصد کی تجلیل کی صورت میں حیاتِ دوام حاصل کر لے:

ہو اگر خود نِگر و خودگر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مر سکے

__________

ہے مگر اُس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام

جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

__________

پیکرِ ہستی ز آثارِ خودی ایست

ہر چہ می بینی ز اسرارِ خودی ایست

(زندگی کا وجود خودی کے آثار میں پنہاں ہے، تو جو کچھ بھی دُنیا میں دیکھتا ہے یہ دراصل خودی کے اسرار ہیں)

تاہم یہ امر پیش نظر رہے کہ تمام تر کامیابی و کامرانی کے باوجود خودی ماہئیتِ نورانی رکھنے کے باعث اپنا رشتہ خدا سے ضرور قائم رکھتی ہے اور اسی لیے معرفتِ الٰہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہی امر فرد کو انانیت اور فرعونیت سے بچاتا ہے۔ اقبال کے بقول پیکرِ خودی میں خودبینی اور خدابینی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ فرمایا:

خودی کا سرِّ نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

__________

خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل

یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ

__________

اگر خواہی خدا را فاش دیدن

خودی را فاش تر دیدن بیآموز

(اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو دیکھ سکے تو خودی کو فاش تر دیکھنا سیکھ یعنی اپنے امکانات سے آگاہ ہو)

اسی طرح احساسِ خودی کا جذبۂ خودداری سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ایک خودشناس فرد مزاجاً غیرت مند ہوتا ہے، کبھی دوسرے کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتا اور یہ بات معلوم ہے کہ اقبال کا تصورِ فقر یا قلندریت دراصل غیرت و خودداری کا ہی دوسرا نام ہے۔ چنانچہ خودشناس افرادِ ملت کسی کی دریوزہ گری نہیں کرتے، اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرتے ہیں اور ملت کو کسی موڑ پر سرنگوں نہیں ہونے دیتے۔ 

مومن کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتا۔ اسی بات کو اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں ’’خودی از سوال ضعیف می گردد‘‘ کے زیرعنوان بھرپور انداز میں پیش کیا اور واضح کیا کہ خودی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کم زور ہو جاتی ہے، یوں انھوں نے گویا پوری صراحت سے خودداری کے ساتھ اس کا رشتہ استوار کر دیاہے۔ اقبال اس مجموعے میں سیدنا عمر فاروقؓ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

خود فرود آ از شتر مثلِ عمرؓ

الحذر از منّتِ غیر الحذر

(کسی کا سہارا لیے بغیر اونٹ سے خود نیچے اتر، جو اپنا کوڑا اٹھانے کے لیے بھی کسی کے بارِ احسان نہ ہوتے تھے، خبردار! غیر کا احسان مت اُٹھانا، ہرگز نہ اٹھانا)

ڈاکٹر نکلسن کے نام خط میں اقبال اسی بات کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’ذاتی محنت کے بغیر جو کچھ بھی حاصل ہو وہ سوال کی ذیل میں آتا ہے۔‘‘

اس امر کے استنباط کے لیے شعر دیکھیے:

وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا

یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے

__________

خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

__________

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سرِّ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی

یوں خودی درحقیقت خودداری اور استحکامِ ذات سے عبارت ہے اور خوددار شخص فطری طور پر بے نیازانہ روش رکھتاہے۔ وہ فقیرانہ و قلندرانہ مزاج کا حامل ہوتا ہے اور یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ قلندری و درویشی کے معنی بے عملی و مُردہ دلی ہرگز نہیں ہیں بلکہ اقبال نے تو درویشی کو ایک ایسی فسان قرار دیا ہے جس پر تیغ خودی کو صیقل کیا جاتا ہے اور اس طرح فرد اور قوم کی قوت و شوکت میں اضافہ ہو جاتا ہے:

چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی

ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ

__________

خودی ہے زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر

اقبال نے احساسِ خودی کے نتیجے میں اُبھرنے والے شوکت و قوت کے عناصر کو بھی جابجا اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔ اس ذیل میں ’’اسرارِ خودی‘‘ میں موزوں شعری حکایات میں ایک پرندے اور الماس کی کہانی ہو یا الماس اور کوئلے کی داستان یا پھر ہجرِاسود کی صلابت و پختگی کی بات ہو یا کہ شیر اور بھیڑوں کا قصہ ہو، سبھی دل پذیر حکایات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ صلابت و طاقت اور قوت و شوکت سے ہی اعلان زیست کیا جاتا ہے۔ مردنی، بے کسی، درماندگی اور ناتوانی مرگِ دوام کی نشانیوں کے سوا کچھ نہیں، لہٰذا ایک خوددار فرد اور قوم ہی جرأتِ بے باکانہ کی حامل ٹھہرتی ہے:

در صلابت آبروئے زندگی است

ناتوانی، ناکسی، ناپختگی است

(زندگی کی آبرو صلابت ہی میں ہے، ناتوانی و ناکسی تو ناپختگی کی دلیل ہے)

واقعہ یہ ہے کہ اقبال سمجھتے ہیں کہ فرد کی صلابت اور پختگی درحقیقت اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔ وہ قوت و شوکت کے اوصاف کے باعث نائب حق اور خلیفہ الارض ٹھہرتا ہے اور یہ عناصر خودی اور خودشناسی ہی کی دین ہیں۔ اپنی نظم ’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں:

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ

ایّامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!

اسی طرح اقبال کے مطابق جب خودی کا جذبۂ عشق سے اتصال ہوتا ہے تو فرد میں عجیب و غریب اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس مرحلے کو اقبال تعمیر خودی کا نام دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس روشن نقطے کے جذبۂ عشق سے اتصال کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ تربیتِ خودی کی تلقین بھی کرتے ہیں اور اس ضمن میں فرد کی رہ نمائی کے لیے اطاعت (سرکش اور بے مہار آزادی کے خلاف بندھ باندھنا اور آئین و قوانین کی پاسداری کرنا)، ضبطِ نفس (اطاعتِ الٰہی کرتے ہوئے نفسانی خواہشات پر قابو پانا تاکہ خودپروری ختم ہو سکے) اور نیابتِ الٰہی (اشرف المخلوقات ہونے کی نسبت کا ادراک کرنا اور اس کے لیے کدوکاوش کرنا) کے مراحل تجویز کرتے ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ سے چند ابیات دیکھیے جن میں ایسے عناصر پیش کیے گئے ہیں جو علامہ کے مطابق تربیتِ خودی میں دخیل ہیں اور جن کے نتیجے میں ایک برتر اور بہتر فرد اور معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے:

دہر میں عیشِ دوام، آئیں کی پابندی سے ہے

موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں

__________

در اطاعت کوش اے غفلت شعار

می شود از جبر پیدا اختیار

(اے غافل اطاعت کا راستہ اپنا لے کہ جبر یعنی ضابطوں کی پابندی ہی سے اختیار حاصل ہوتا ہے)

__________

شکوہ سنجِ سختیِ آئیں مشو

از حدودِ مصطفیؐ بیروں مشو

(آئین، قوانین اور ضابطوں کی سختی کا گلہ مت کر اور حدودِ مصطفیؐ سے باہر قدم نہ نکال)

__________

تا عصائے لا الٰہ داری بدست

ہر طلسمِ خوف را خواہی شکست

(لاالہ کا عصا جب تک تیرے ہاتھ میں ہے تو ہر خوف کے طلسم کو شکست دے سکتا ہے)

خلاصۂ کلام یہ کہ اقبال نے خودی، خودداری اور استحکام ذات کے تصورات سے افرادِ ملتِ اسلامیہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور آج بھی یہ کلامِ مستنیر ہمارے لیے مشعلِ ہدایت ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی سربلندی اسی میں پنہاں ہے کہ افرادِ ملت حرکت و حرارت اور تحرک و عمل کے عناصر کے ذریعے زندگی کے جمود کو توڑ دیں۔ کون نہیں جانتا کہ عصرِحاضر میں اس عملی و حرکی تصور کی نہ صرف اہلِ وطن کو ضرورت ہے بلکہ ملتِ اسلامیہ کی ترقی و فلاح بھی اسی میں مضمر ہے:

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا، ہے مقام پادشاہی

تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے

جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی