ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے جو بجا طور پر ٹرمپ کی سوچ کا عکاس ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان سے متعلق میٹنگ ہورہی تھی اور انخلا کے موضوع پر بات چیت جاری تھی۔ سی آئی اے ، پینٹاگان افغانستان سے فوری واپسی کے حق میں نہ تھے جبکہ ٹرمپ نکلنے پر زور دے رہے تھے ۔ اداروں کے سربراہان کا کہنا تھا کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کا مرکز بن جائے گا ، جس پر ٹرمپ نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ امریکہ کے لئے خطرہ بن سکیں گے اور کیا وہ نائن الیون جیسی دوسری کارروائی کرسکیں گے تو ان کا جواب تھا کہ وہ امریکہ کے لئے دوبارہ ایسا خطرہ نہیں بن سکتے ۔ اس پر انہوں نے زلمے خلیل زاد کو مخاطب کرکے جلدی افغانستان سے نکلنے کا پلان تیار کرنے کو کہا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گرد دوبارہ سر اٹھاتے ہیں تو افغانستان کے پڑوسی ممالک مثلاً پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور چین جانیں اور دہشت گرد جانیں۔ میں کیوں امریکی ٹیکس دینے والے شہریوں کا پیسہ افغانستان میں لگا دوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں سوچا کہ ان کی اتحادی حکومت کا کیا ہوگا اور امریکہ کے امیج پر کیا اثر پڑے گا۔ وغیرہ وغیرہ
اس واقعے سے ٹرمپ کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے لئے کوئی بھی ملک اہم نہیں سوائے امریکہ کے۔ وہ وہی کچھ کریں گے جس میں انہیں امریکہ کا مفاد نظر آئے گا۔ اس لئے لگتا یہی ہے کہ ان کی پہلی ترجیح امیگریشن کا مسئلہ ہو گا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی وہ یہ عزم ظاہر کرتے رہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کو نکالیں گے اور صدارتی مکالمے میں بھی انہوں نے اس بات پر زور دیا۔ یوں ٹرمپ کے آنے سے ایک تو امریکہ میں پناہ لینے کا رجحان کم ہو گا اور دوسرا وہاں پر غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں کا جینا محال ہو جائے گا۔ بیرونی محاذ پر ان کی ترجیح چین ہے۔ وہ چین کا راستہ روکنے کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے۔ انہوں نے فلسطین میں جنگ ختم کرنے کی بات کی ہے لیکن اس معاملے میں ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ ثالث بننے کی بھی کوشش کریں گے لیکن اصلاََ ان کا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ہو گا۔ اپنے پہلے دور صدارت میں وہ امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے جبکہ ان کا دامادجیرڈ کشنر بھی کٹر صہیونی ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرائن کی جنگ ختم کرائیں گے۔ اب اس جنگ کے خاتمے کا تو کوئی اور طریقہ ممکن نظر نہیں آتا لیکن شاید وہ یوکرائن کی مدد بند کرائیں کیونکہ اپنی تقریروں میں وہ یہ بھی کہتے رہے کہ امریکیوں کا پیسہ کیوں وہاں خرچ ہو۔ ایک اور تبدیلی یورپ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کی بھی آسکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ خیال ہے کہ نیٹو میں امریکہ کا پیسہ اور انسانی ریسورس زیادہ خرچ ہوتے ہیں اور یورپ کماحقہ حصہ نہیں ڈالتا۔ یوں وہ یورپ کو اپنا حصہ بڑھانے کا کہہ سکتے ہیں نہیں تو پھر وہ بھی نیٹو کو توجہ نہیں دیں گے۔ ایران کے معاملے پر بھی وہ سختی کریں گے اور اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لئے شہہ دے سکتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو غالب امکان یہ ہے کہ پاکستان کو لاڈلا بنائیں گے اور نہ دشمن لیکن چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے تناظر میں اپنے تعلقات کی سمت کا تعین کریں گے۔ ماضی میں بھی امریکہ کو پاکستان سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ امریکی پاکستان کو افغانستان کی عینک لگا کر دیکھتے تھے اور اب چین کی عینک لگا کر دیکھیں گے۔ اس معاملے میں وہ جوبائیڈن کے مقابلے میں زیادہ ایگریسیو ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو یہ مشکل درپیش ہو گی کہ وہ چین اور امریکہ کے مابین توازن کو کیسے برقرار رکھے۔ ایک سوال جو اس وقت غیر سنجیدہ حلقوں میں زیربحث ہے کہ کیا وہ عمران خان کی رہائی کے لئے دبائو ڈالیں گے یا نہیں تو اس سے متعلق گزارش یہ ہے کہ بلاشبہ زلفی بخاری کا ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے ساتھ رابطہ ہے اور وہ ان کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کے کان میں بات ڈال سکتے ہیں۔ امریکہ میں موجود پاکستانی تارکین وطن زیادہ تر عمران خان کے حامی ہیں اور زیادہ تر نے ووٹ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا ہے۔ وہ لوگ بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ حسب عادت اس سے متعلق ایک آدھ ٹویٹ بھی کر سکتے ہیں لیکن اسے دو طرفہ تعلقات کی پالیسی کا ایشو بنائیں گے اور نہ اس سے متعلق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کسی دبائو میں آئے گی۔