امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران یہاں رہنے والے یہودی ووٹروں کی بڑی تعداد نے ڈیموکریٹک پارٹی اور کملا ہیرس کو ووٹ دیا۔
ابتدائی ایگزٹ پولز کے مطابق 79 فیصد یہودی ووٹروں نے کملا ہیرس کو ووٹ دیا، جبکہ صرف 21 فیصد نے ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی۔
یہ پچھلے 24 سال میں ریپبلکن پارٹی کے لیے یہودی ووٹوں کا سب سے کم تناسب ہے۔
ادھر فاکس نیوز کے سروے کے مطابق یہودی ووٹروں میں سے 67 فیصد نے کملا ہیرس کی حمایت کی، جبکہ 31 فیصد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
دونوں سرویز اس بات پر متفق ہیں کہ یہودی ووٹروں نے دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹک امیدوار کی زیادہ حمایت کی۔
یہ صورتِ حال اس وقت دلچسپ ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مشی گن میں مسلمانوں، خاص طور پر عرب نژاد ووٹروں کا رجحان ریپبلکن امیدوار کی طرف بڑھا ہے۔
مشی گن کی اہم مسلم اکثریتی کاؤنٹیز وین کاؤنٹی (ڈیئربورن) اور واشٹینا کاؤنٹی میں ٹرمپ کی کارکردگی بہتر رہی۔
وین کاؤنٹی میں ٹرمپ نے 33 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو 2020ء کے انتخابات کے مقابلے میں بہتر ہیں۔
ڈیئر بورن کے میئر نے بھی کملا ہیرس کی حمایت نہیں کی اور اس کی بڑی وجہ بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی تھی۔
ایگزٹ پولز سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 فیصد ووٹروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی اسرائیل کے لیے حمایت بہت زیادہ ہے، جبکہ 26 فیصد کے مطابق یہ کافی نہیں ہے۔
معاشی مسائل 41 فیصد ووٹروں کے لیے سب سے اہم رہے، جبکہ خارجہ پالیسی صرف 8 فیصد ووٹروں کے لیے اہم تھی۔
اس تمام صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حمایت اور فلسطین کے مسئلے پر بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی نے کچھ ڈیموکریٹک ووٹروں کو متاثر کیا، جس کا فائدہ ٹرمپ کو ہوا۔
یہ نتائج سیاسی طور پر دونوں جماعتوں کے لیے اہم ہیں، کیونکہ یہودی ووٹروں کی بڑی تعداد کی حمایت کملا ہیرس کو حاصل ہوئی، جبکہ مشی گن میں مسلمانوں کا رجحان ریپبلکن پارٹی کی طرف بڑھا۔