تحریر: مہناز بنجمن… اسلام آباد
سرفراز تبسم کی شاعری پڑھتے پڑھتے سوچ کسی ساحل سمندر تک جا پہنچی ہے جہاں الفاظ ریت کی مانند بکھرے پڑے ہوں، سورج کی کرنیں انہیں منور کرتی ہوں اور سمندر کا پانی انہیں بار بار نمو بخشتا ہو، وہ آسمان سے براہ راست رابطے میں ہوں اور ستاروں سے باتیں کرتے ہوئے بادلوں بلکہ آسمان تک جا پہنچیں۔ ان لفظوں کی سمندر اور آسمان سے اتنی اپنائیت ہے کہ کسی سچے دوست کی طرح جب چاہے ان سے محوِ گفتگو ہو جائیں، جب چاہیں ہاتھ ملائیں، گلے مل سکیں اور ان کے ساتھ سفر پر رواں دواں ہو جائیں۔ سرفراز تبسم سچ میں ایک ایسی کشتی کے مسافر معلوم ہوتے ہیں جو سمندری سفر میں ہو مگر اس کی منزل آسمان میں ہو، بچوں کی سی معصوم فطرت رکھنے والے شاعرکی جیب میں اتنی وسعت ہے کہ وہ اس میں خواب، رات، ستارے، حتیٰ کہ کچھ بھی بھر سکتا ہے۔ کبھی تو یہ درویش منش شاعر فطرت کی طرح بے پروا دکھائی دیتا ہے، کبھی ستاروں کو توڑتا ہوا دن رات کو ملاتے ہوئے فلک کو چھو لیتا ہے۔ پیاس، بارش، مٹی، پیڑ، پرندے، باغ، گھر، پھول، تتلی سے مزین یہ شاعری خالصتاً فطرت سے جڑ ی ہوئی ہے جس میں پردیس اور ہجر کی اُداسی کے ساتھ ساتھ دیس اور دوستوں کی محبت بھی شامل ہے۔ سمندر سے متعلق کچھ اشعار دیکھئے۔ میں جلنے نہ دیتا تیری بستیوں کو اگر میرے ہاتھوں میں ہوتا سمندر، سرکنے لگتی ہے پیروں سے کشتی فلک کو ہاتھوں میں جب بھی لیا ہے محبت سے سرشاری کا عالم دیکھئے، کسی کے پیار کا یہ معجزہ ہے فلک چھونے کے قابل ہو گیا ہوں، خواب زاروں کا کوئی رانجھا ہے جو بناتا ہے ہیر کاغذ پر، چھت پر یاد کی بارش ہوتی رہتی ہے دل کا خالی پیالہ بھرتا رہتا ہے۔ یہ سادہ منش عشقِ حقیقی سے لبریز بھی ہے، اندر کوئی فقیر سا آتا ہے وجد میں پھر اس کے بعد جی نہیں بھرتا دھمال سے، اے میرے کوزہ گر مجھے رہنے دے چاک پر میں اور ٹوٹ جاؤں گا اس دیکھ بھال سے، پھیلی ہوئی ہے ذات تیری، میری لوح پر مجھ پر کسی کا نقش بنایا تو میں گیا۔ سرفراز تبسم اپنی سوچ کی وسعت کے ساتھ ساتھ فطرت کی خوبصورتی اور سادگی کا بھی قائل ہے جو بیکار کے تجسس کی بجائے محبت اور انسان دوستی کے فروع کاپرچار کرتا ہے۔ نفرتیں آگ میں جلانی ہیں راگ دیپک کی تان ہے میری، سبھی کچھ جاننے کی کیا ضرورت یہ دنیا کتنی مشکل میں پڑی ہے، آسمان سے گرا سمندر میں آگے منزل گمان ہے میری اپنی ذات کی کھوج اور قلم کی وسعت دیکھیے، قلم کی نوک کو رکھنا فلک پر نظر اپنی مگر انوار کرنا، سمجھ جاتی ہے دنیا مجھ کو لیکن میں خود پر بھی تو کھلنا چاہتا ہوں سرفراز تبسم اپنے نام کی طرح بہت سرفراز سوچ رکھتے ہیں اور تبسم کا عنصر بھی ان کی مثبت سوچ کا آئینہ دار ہے۔ دُعا ہے کہ سمندر کا یہ مسافر اپنے لفظوں سے تحلیل کے آسمان چھوتا رہے۔