• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے آئی ٹول ہوم آفس امیگریشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، واپس لیا جائے، ناقدین کا مطالبہ

مانچسٹر (نمائندہ جنگ) برطانوی ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ اے آئی ٹول ہوم آفس امیگریشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ہوم آفس کے اہلکار خود کار نفاذ کی تجاویز کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی مغلوب ہو سکتے ہیں لہٰذا روبوکیس ورکرز کے خاتمے کی ضرورت ہے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کا مصنوعی ذہانت کا آلہ جو بالغوں اور بچوں کے تارکین کے خلاف نفاذ کی کارروائی کی تجویز پیش کرتا ہے حکام کے لیے خودکار زندگی بدلنے والے فیصلوں کو ربڑ سٹیمپ کرنا بہت آسان بنا سکتا ہے خود کار نظام اے آئی کی معاونت سے چلنے والے امیگریشن انفورسمنٹ سسٹم کی تفصیلات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روبو کیس ورکر ایک الگورتھم فیصلوں کی تشکیل میں شامل ہوتا ہے لہٰذا یہ ملازمین کو مغلوب کر سکتا ہے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ وہ کام کو ترجیح دے کر استعداد کار فراہم کرتی ہے اور یہ کہ انسان ہر فیصلے کے لیے ذمہ دار رہتا ہے اس کا استعمال سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے بڑھتے ہوئے کیس میں کیا جا رہا ہے جو کہ اس وقت تقریباً 41ہزار افراد کو ہٹانے کی کارروائی کے تابع ہیں۔ تارکین وطن کے حقوق کی مہم چلانے والوں نے ہوم آفس سے اس نظام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی کو ظلم اور نقصان کو زیادہ موثر بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر مبہم نظام کے کام کی ایک جھلک معلومات کی ایک سال تک جاری رہنے والی آزادی کی جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی ہے مہم کے گروپ پرائیویسی انٹرنیشنل کو ترمیم شدہ دستورالعمل اور اثرات کے جائزے جاری کیے گئے تھے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جن لوگوں کے معاملات الگورتھم کے ذریعے زیرسماعت ہیں انہیں خاص طور پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس میں اے آئی کارفرما ہے یہ سسٹم ان متعدد اے آئی پروگراموں میں سے ایک ہے جسے یوکے کے سرکاری حکام تعینات کر رہے ہیں کیونکہ حکام زیادہ رفتار اور کارکردگی چاہتے ہیں صحت سے لے کر فلاح و بہبود تک کے شعبوں میں سرکاری اے آئی کے استعمال کے بارے میں زیادہ شفافیت کے مطالبات ہیں۔ سیکرٹری برائے ریاست پیٹر کائل نے کہا کہ اے آئی میں ہماری عوامی خدمات کو بہتر بنانے کی ناقابل یقین صلاحیت ہے لیکن مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں ان نظاموں میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوم آفس کے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ سسٹم کو ان لوگوں کے بارے میں ذاتی معلومات مہیا کی جاتی ہیں جو ممکنہ طو رپر نفاذ کی کاروائی کا نشانہ ہیں بشمول بائیو میٹرک ڈیٹا، نسلی اور صحت کے نشانات اور مجرمانہ سزاؤں کے بارے میں ڈیٹا بھی شامل ہوتا ہے پرائیویسی انٹرنیشنل نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ نظام اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسانی حکام الگورتھم کی سفارشات کو کسی کیس پر کارروائی کے لیے ربڑ سٹیمپنگ پر لے جائیں گے۔

یورپ سے سے مزید