واشنگٹن ڈی سی اگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ویٹی کن ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ ایک دہریے ہیں۔میں نے امریکی الیکشن سے سو دن پہلے سوشل میڈیا پر پیش گوئی کی تھی کہ ٹرمپ نہ صرف صدارتی الیکشن جیت جائیں گے بلکہ ان کی ری پبلکن پارٹی ایوان نمائندگان کے علاوہ سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرلے گی۔ بلکہ میں نے ٹھیک ٹھیک بتادیا تھا کہ سینیٹ میں وہ تین ایسی نشستیں جیتے گی جو چھ سال سے ڈیموکریٹس کے پاس ہیں۔ امریکا میں رہتا ہوں اور سیاست کے علاوہ امریکی سماج سے بھی تھوڑی واقفیت رکھتا ہوں۔ اس جانکاری کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ امریکی عوام نظریاتی اختلاف سے زیادہ معاشی صورتحال پر ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے دونوں پارٹیوں کی انتخابی مہم سے زیادہ عوام کا موڈ دیکھ کر نتائج کا اندازہ لگالیا تھا۔ مجھے یہاں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا پرستار نہیں ہوں۔یہاں ری پبلکن پارٹی قدامت پرستوں کی حمایت رکھتی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی لبرل طبقے کی نمائندہ ہے۔ لیکن جیسا کہ سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا، ڈیمو کریٹک پارٹی نے ورکنگ کلاس کو چھوڑ دیا تھا، ورکنگ کلاس نے ڈیمو کریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا۔ برنی سینڈرز نے یہ بات اس لیے نہیں کی کہ ان کا جھکائو بائیں بازو کی جانب ہے۔ الیکشن کے نتائج ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں، جو وائٹ کالر جاب کرتے ہیں، جو خوشحال ہیں، ان کی اکثریت نے کملا ہیرس کو ووٹ دیا۔ جو لوگ کم پڑھے لکھے ہیں، بلو کالر جاب کرتے ہیں، پے چیک ٹو پے چیک پھنسے رہتے ہیں، ان کی اکثریت نے ٹرمپ کا انتخاب کیا۔
اوباما دور میں قومی سلامتی کے مشیر بین رہوڈز نے اس صورتحال پر لکھا کہ لبرل جمہوریت ناکام ہو رہی ہے اور اس ماڈل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔یورپ میں بھی دائیں بازو کی جماعتیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ری پبلکن پارٹی میں ریڈیکل کنزرویٹو رہنما موجود ہیں جو اسی سمت آگے جائینگے۔ امریکی صدر عالمی طاقت کا سربراہ ہوتا ہے اور بین الاقوامی معاملات میں اسکی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک عام امریکی ووٹر کو بین الاقوامی معاملات اور جس نظریاتی تقسیم کا اوپر ذکر ہوا، اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس کیلئے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مکان کا کرایہ، راشن اور بل آسانی سے دے سکے گا یا نہیں۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں معاشی حالات اچھے تھے۔ ٹیکسوں میں کمی ہوئی تھی۔ روزگار کے مواقع زیادہ اور بیروزگاری میں کمی ہوئی تھی۔ آخری دنوں میں کوویڈ نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور امریکا میں بھی صورتحال بگڑی لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کی نااہلی نہیں تھی۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن امریکی عوام کی یادداشت بہتر نکلی۔ انھوں نے ٹرمپ اور بائیڈن ادوار کا جائزہ لیا اور پھر ایک فیصلہ کیا۔ بہت سے دانشوروں، صحافیوں اور سیاست دانوں کو اس فیصلے سے دھچکا لگا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ من پسند نتائج دیکھنا چاہتے تھے۔بیلٹ پیپر پر صدارتی انتخاب ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس میں تھا۔ لیکن ماڈرن ایج کے ایڈیٹر ڈینیل میکارتھی نے دلچسپ بات لکھی کہ یہ مقابلہ ٹرمپ اور باقی سب کے درمیان تھا۔ دوسری طرف صرف کملا ہیرس نہیں تھیں بلکہ سابق صدور بارک اوباما اور بل کلنٹن بھی مہم میں شریک تھے۔ سابق نائب صدر ڈک چینی کی بیٹی ری پبلکن پارٹی کی لز چینی بھی ہیرس کے ساتھ تھیں۔ سابق فوجی جرنیل مارک ملی اور جان کیلی بھی ان کی جانب تھے۔ انٹیلی جنس کمیونٹی بھی ٹرمپ کیخلاف تھی۔ ٹرمپ کی کامیابی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قائم امریکی سیاسی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ 2016میں بھی ٹرمپ نے جمے جمائے سیاسی خاندانوں کو شکست دی تھی، یعنی ری پبلکن پارٹی کی پرائمریز میں ایک بش کو ہرایا اور الیکشن میں ایک کلنٹن کو۔ڈیموکریٹک پارٹی کی ناکامی میں مقامی سیاست کے اعتبار سے ایک کم اہم معاملہ غزہ جنگ بھی تھا۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اس پر بہت احتجاج ہوا اور طلبہ نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل نواز پالیسی پر سخت تنقید کی۔ مسلمانوں کیلئے بھی یہ جذباتی مسئلہ تھا۔ اب کئی انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں ہزاروں مسلمان آباد ہیں اور انکے ووٹ بازی پلٹا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ دور میں اسرائیل پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ ٹرمپ اسرائیل کے دوست ہیں اور انکے گزشتہ دور میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کی کامیابی سے ایک طرف امریکا کے ہمسائے کینیڈا اور میکسیکو پریشان ہیں اور دوسری جانب یورپی اتحادی فکرمند ہیں۔ لیکن امریکا اور بیرون ملک عام لوگوں کو سب سے زیادہ تشویش ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی پر ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ دوسری بار وائٹ ہائوس میں آنے کے بعد غیر قانونی امیگرنٹس کو بڑی تعداد میں ملک سے نکال دیں گے۔ قانونی طور پر آنے والوں کو بھی سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گااور ان کے کیسز سست چلیں گے۔