پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خام مال کے حوالے سے زیادہ تر انحصار کپاس کی پیداوار پر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس فصل کی اچھی پیداوار نے ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات میں کپاس اور اس سے تیار شدہ مصنوعات کا حصہ 55سے 60فیصد تک ہے جبکہ کپاس کی کل پیداوار کا 70 سے 80 فیصد پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ سے دو عشروں کے دوران ملک میں کپاس کی کاشت اور پیداوار انڈسٹری کی ضرورت یا ڈیمانڈ سے بہت کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریبا دو ارب ڈالر سے زائد کی کپاس بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا مجموعی پیداواری ہدف ایک کروڑ 28 لاکھ گانٹھ مقرر کیا گیا جسے بعدازاں کم کرکے ایک کروڑ 11 لاکھ 50 ہزار کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ ہدف پورا نہیں ہو سکا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پنجاب کی 385 جننگ فیکٹریوں میں سے 200 کے قریب جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔ ان جننگ فیکٹریوں میں تین نومبر تک کپاس کی 42 لاکھ 91 ہزار 105 گانٹھیں لائی گئی ہیں جو کہ گزشتہ سال کی 67 لاکھ 94 ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں 37 فیصد کم ہیں۔ اس طرح گزشتہ سال کی نسبت رواں سال پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 38 فیصد اور سندھ میں 65 فیصد کمی آئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کی بڑی وجہ پنجاب میں واقع شوگر ملز کو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شوگر ملز ان اضلاع میں واقع ہیں جہاں ماضی میں کپاس کاشت کی جاتی تھی لیکن شوگر ملز کے قیام کے بعد ان اضلاع میں کپاس کی کاشت میں کمی اور کماد کی کاشت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ تاہم اب یہ رجحان مزید تبدیل ہوا ہے اور گزشتہ برس ان اضلاع میں کپاس اور گنے کی جگہ مکئی اور چاول کی کاشت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں کپاس کے زیرکاشت رقبے میں ایک سال کے دوران 9لاکھ 31ہزار ایکڑ اور کماد کے زیرکاشت رقبے میں 3 لاکھ 41 ہزار ایکڑ سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔ اسکے مقابلے میں چاول کے زیرکاشت رقبے میں 10لاکھ ایکڑ اور مکئی کے زیرکاشت رقبے میں ایک لاکھ 95 ہزار ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ایک طرف اسموگ کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا اور دوسری طرف کپاس کی کاشت کے لئے مخصوص اضلاع میں دیگر فصلوں کی کاشت میں اضافے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو خام مال کی قلت کا سامنا ہے۔
کپاس کی پیداوار میں کمی کا ایک اور بڑا سبب اس حوالے سے ریسرچ کے شعبے کا کمزور ہونا بھی ہے۔ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی 1948 سے کام کر رہی ہے۔ اس ادارے کے تحت ملتان، سکرنڈ اور کراچی میں کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جبکہ بہاولپور ، گھوٹکی، ساہیوال، سبی، ڈی آئی خان، لسبیلہ اور میر پور خاص میں ریسرچ اسٹیشن قائم ہیں۔ اس کے باوجود یہ ادارہ کپاس کی پیداوار اور معیار میں اضافے یا کپاس کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانے کے لئے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔
پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کو فنڈز کی فراہمی کا نظام بھی کافی پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ گزشتہ کئی سال سے غیر فعال ہے۔ واضح رہے کہ بظاہر پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے تمام ذیلی ادارے وفاقی وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے ماتحت کام کرتے ہیں لیکن عملے کی تنخواہوں ودیگر اخراجات کے لئے فنڈز آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن سے لئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس کی ہر گانٹھ پر اپٹما 50 روپے ’’کاٹن سیس‘‘ کی مد میں پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کو ادائیگی کرتی تھی جس سے اس کے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ذیلی اداروں کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور ریسرچ کا کام چلتا تھا۔ تاہم اپٹما نے ’’کاٹن سیس‘‘ کے غلط استعمال پر ان فنڈز کی ادائیگی 2017ء سے بند کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اپٹما نے وفاقی حکومت سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو دیئے جانے والے اربوں روپے کے ’’کاٹن سیس‘‘ کا کسی تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروانے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔ اپٹما کے مطابق سنٹرل کاٹن کمیٹی کو 17 برس کے دوران تین ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی لیکن کپاس کی پیداوار بڑھانے کی بجائے یہ رقم انتظامی کاموں پر خرچ کر دی گئی جبکہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی جانب سے کاٹن ریسرچ سنٹرز کو بھی جدید بنیادوں پر استوار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ملک میں کاٹن ہائی برڈ بیج یا بی ٹی کاٹن کو فروغ دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ غیر معیاری بیجوں کی فروخت اور زرعی ادویات و کھادوں میں ملاوٹ کے باعث کپاس کے معیار میں بھی کمی آئی ہے۔ اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں اور کپاس کی روئی کو بدرنگ کرنے والے کیڑوں کا تدارک بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ان مسائل کے باعث آنے والے وقت میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار میں مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان حالات میں اگر کپاس کی قلت پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو انڈسٹری کو خام مال کی فراہمی میں تعطل کے باعث مکمل یا جزوی بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی کا باعث بننے والے عوامل کا سدباب کرنےکے ساتھ ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کاٹن پالیسی تشکیل دے تاکہ پاکستان کو دوبارہ کپاس کی پیداوار میں خودکفیل بنا کر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش خام مال کی قلت کا بحران حل کیا جا سکے۔