وائے بدنصیبی! وطن عزیز گزشتہ تین سال سے مسلسل ابتری میں ہے جب اپریل 22 میں متروک ہوئی ہارس ٹریڈنگ اور بمطابق سرکاری اعلانا ت بیرونی دھمکی کےتنا ظر میں چند ماہ کی ملکی سیاسی قوتوں کے درمیان سخت کشیدگی اورتنائو کے نتیجے میں دو سالہ کوویڈزدہ اور ڈیڑھ سالہ بھارت سے محدود سرحدی اور فضائی جھڑپوں سمیت ساڑھے تین سالہ اقتدار اختتام کو پہنچا تو اولین ردعمل پاکستان کی قوت اخوت عوام کا آیا، جنہوں نے مایوسی و حسرت میں لپٹی معزول وزیر اعظم کی کانپتی اپیل پر ایسا ملک گیر احتجاج کیا جو عوام الناس کے سیاسی احتجاج کی جدید عالمی تاریخ کی ایک انتہائی قابل مطالعہ و تحقیق کیس اسٹڈی بن گئی۔پاکستانی سیاسیات اور سماجی رویوں کے اسکالرز اس جانب متوجہ ہیں کہ یہ ان کیلئے ایک دلچسپ ریسرچ ایونیو ہے۔ ملک گیر سطح پر رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں سے نہ جانے کیسے کتنے ہی شہر شہر، قصبہ قصبہ، نگر نگر بعد از نماز تراویح سینکڑوں، احتجاجی ٹولیوں اور ریلیوں نے نصف شب انوکھے اور حیران کن احتجاج کو بغیر کسی منظم پارٹی منصوبہ بندی کے پی ٹی آئی کارکنوں کا ہی نہیں عوام الناس کا ملک گیر احتجاج بنا دیا۔گویا قوم کو رجیم چینج کی بدہضمی فوراً ہوئی۔ حالانکہ خان کی یہ اپیل مایوسی میں ڈوبے قوم سے خطاب کے اختتام پر دو تین ڈھیلے ڈھالے فقروں پر مشتمل تھی۔ خاکسار کا فوری اور آج تک کا اپنے تئیں مصدقہ تجزیہ (جو واقعات کی شہادتوں سے پختہ ہوگیا) یہ تھا اور اب تو رائے یہ ہی بنی ہے کہ: پاکستانی عوام کا خمیر و ضمیر تمام تر سیاسی سماجی پیچیدگی اور غریبی محرومی کے باوجود اپنی آزاد خود مختار حقیقت کے حوالے سے عود کر باہر آیا ، یقیناً اس کی بلند درجے موجودگی اب تک اتنی قابل دید نہیں تھی۔ یہ خان کے اپنے بیانیے اور سیاسی تجزیہ کاروں کے ایک بڑے سیکشن کے ان مجموعی تجزیوں کی باٹم لائن کہ : عوام الناس خصوصاًنئی نسل طاقتور اسٹیٹس کو (نظام بد) کی گرفت کے باوجود خان کی آزاد منش سیاسی قیادت، سوشل میڈیا اور نظام بد کی عوام مخالف مسلسل ستم گری کے باعث اس کی ضد میں باشعور اور ایمپاورڈ ہوگئی ہے۔ زیر بحث متذکرہ آئین نو کا خصوصی اور عمومی تجزیہ بہت سادہ لیکن اتنا ہی واضح تھا اور ہے کہ لوگوں کو رجیم چینج کی دوبڑی وجوہات متروک ہارس ٹریڈنگ کی بحالی، جس کی سرگرمیاں زرداری صاحب کی لاہور میں ڈیرہ داری اور چوہدری شجاعت حسین کی اقامت گاہ پر آنیوں جانیوں کی صورت انتہا پر تھیں، نیز بیرونی مداخلت یا دھمکی کی کج بحثی عام پاکستانی بالکل ہضم نہیں کرسکے اور خان کے حق میں ہوگئے۔یہ ہے وہ سیاسی پس منظر جو آج پاکستان کے بطور قوم اور ریاست بلند درجے کے اضطراب، کج بحثی اور انا و خوف سے انتہائی اہم ترین اور حساس قومی فیصلوں کا سبب بن کر اذیت ناک پیش منظر میں تبدیل ہو کر پوری قوم اور ریاست کو جکڑے ہوئے ہے۔ عوامی شدید اور بنیادی ضروریات و محرومی، خود داری و سیاسی شعور خان کے عوام کے ساتھ اور عوام کے خان سے جڑ جانے اور سخت متنازع سیاسی قائدین کو ریاستی اداروں کی خلاف حلف مسلسل آئین شکنی اور دیدہ دلیری سے اختیار کی گئی دو قانونیت اور سب سے بڑھ کر پی ڈی ایم اور نگران حکومت کی ماورائےآئین اقتدار کی طوالت، عدلیہ کی تقسیم اور غیر پیشہ ورانہ رویے سے نکلا اس کی مجموعی کارکردگی پر عوامی اعتماد کا گراف زمین سے لگنے، عوام کی بھاری اکثریت حکومت سے دور اور خان کی سیاسی قربت میں آتی گئی۔ یہ نہ بھولا جائے کہ دوران کوویڈ ۔19 کے وبائی ماحول میں باجوازہوتی مہنگائی پر حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم قائم ہوا اس کی تحریک یا حکومت مخالف پروپیگنڈا کامیاب ترین تھا، عوام نے دوران وبا عمران خان حکومت کی بہترین مینجمنٹ اور غربا کو فراخدلانہ ریلیف پیکیج کا کوئی الائونس نہ دیا اور بڑھتی مہنگائی اور پی ڈی ایم کے اس پر مسلسل ہوتے ملک گیر احتجاج نے حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرایا اور پی ڈی ایم نے اتنی ہی تیزی سے اپنی جگہ بنانی شروع کر دی۔ یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد بزور ہارس ٹریڈنگ پہلے ’’آئین نو‘‘ میں انتباہ کیاگیا تھا کہ حکومت پی ڈی ایم بنا لے گی لیکن اس کا پورے ملک اور سب سے زیادہ ن لیگ کو خسارہ ہوگا۔ اب ملکی نقصان ن لیگ سے کہیں زیادہ بڑھ گیا کہ اس کا تو اختتام ہی لگتا ہے۔ واضح رہے عمران حکومت کے آغاز پر ہی محدود فضائی جنگ میں پاک فضائیہ کا منہ توڑ جواب،خان حکومت اور اس کی مکمل خیر خواہ فوج کی عظیم مشترکہ کامرانی تھی لیکن جس فراخدلی سے حکومت ،پی ڈی ایم کے ملک گیر جاری احتجاج کو اس کا حق تسلیم کرتےا سپیس دے رہی تھی، اس سے جمہوری سیاسی عمل کو تقویت تو بحرانی سی کیفیت میں بھی مل رہی تھی ۔ قارئین کرام یاد ہے نا ، ن لیگ تو اپنے جارحانہ ابلاغ سے مہنگائی پر چیخ و پکار اور احتجاج کے لئے وقف ہوگئی تھی لیکن کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ اور احتجاجی جلسوں جلوس میںمولانا صاحب کی جماعت بھی پیش پیش رہی لیکن کیا مجال ہے کہ اس کے خلاف اسلام آباد، کراچی یا کسی اور بڑے شہر یا کہیں بھی کوئی حکومتی ہتھکنڈا استعمال کرکے کوئی رکاوٹ ڈالی گئی ہو۔ لیکن اب اس کا احتجاج روکنے کیلئے 13 سو کنٹینر صرف اسلام آباد میں لگائے جا رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا انتظامی ڈیزاسٹر ہے۔قوم و ملک اور ہماری بنتی تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ پی ڈی ایم کی عوامی رائے، ضروریات و سہولیات اور قومی جذبات اور بمطابق آئین الیکشن کا انعقاد بہت کچھ غلط بلکہ بڑے بڑے ماورا ئےدستور ہو جانے کے باوجود، ایک غیر متنازع اور آئینی لازمے اور بحران کے یقینی اور واحد حل کے طور پر موجود تھا۔ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ جو کچھ رجیم چینج کے لئے اور اس کے بعد پی ڈی ایم اور مثالی مقتدرہ ماورائے دستور طویل نگران حکومت نے عوام اور آئین مخالف کیا اب جبکہ بحران در بحران کی کیفیت کے واحد حل (شفاف انتخاب) کے ساتھ بھی تاریخ کی بدترین بدسلوکی کی جائے گی۔ خصوصاً پی ڈی ایم حکومت جس میں ن لیگ کا غلبہ تھا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے دعوے کی علمبردار تھی اور ہر حال میں خواہ اس پر کسی بھی بڑے ریاستی ادارے کا غلبہ تھا اس کو اپنی بقا اور بھرم کے لئے اپنےتئیں تو کم از کم ایسے انتخابات کے انعقاد کے لئے سینہ تان لینا چاہیے تھا ۔ عمران خان کی باکمال طویل اسیری میں لڑی جانے والی قانونی جنگ نے ملکی نظام انصاف و قانون کو مکمل بے نقاب کرکے، اس پر عوام کا اعتماد یکسر ختم کردیا ہے وہ اب سراپا احتجاج حکومت کا رویہ حکومت والا نہیں یہ ’’راج‘‘ ہے۔ لیکن قوت اخوت عوام اپنی جگہ اٹل اب اگر خان اتنی کامیاب اور راج کےلئے ناکام ترین قانونی جنگ کے نتائج کے بعد بھی رہا نہیں ہوتا تو اس مہم جوئی، ڈیزاسٹر تجربے اورراج و عوام میں کوسوں دور کے فاصلے کے نتائج خاکم بدہن ... وما علینا الالبلاغ۔