روزنامہ جنگ میں حامد میر صاحب کا آرٹیکل پڑھا جس کا موضوع ’’فریاد بلوچستان‘‘ تھاتو اس آرٹیکل کا جواب دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ ریاست یا کسی بھی فرد یا حکومت کے خلاف یک طرفہ بیانیہ اس لئے بنتا ہے کہ ہم سیاستدان اکثر در گزر سے کام لیتے ہیں اورمیر صاحب ایک سے زائد مرتبہ اس کا فائدہ اٹھا چکے ہیں اسلئے اس بات پر نکتہ بہ نکتہ جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ میں یک طرفہ بیانیہ بنانے کی بجائے تاریخ کے اوراق پر متبادل بیانیہ موجود رہے۔ میر صاحب نے اپنے آرٹیکل کی ابتدا ہی ”ادب“ اور ”بے ادب“ کی اصطلاح سے کی ہے اور اس کیلئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تصنیف کا سہارا لیا ہے اب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب باادب باقی بلوچستان کے دیگر سیاستدان بے ادب ہونگے لیکن انکی فہرست میں کیا صرف وہ لوگ بے ادب ہیں جو بلوچستان میں پاکستان کی بات کرتے ہیں یا محترم صحافی کے کچھ پرانے مہربان بھی شامل ہیں یا نہیں اس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ بلوچستان کے بے ادب سیاستدانوں کی فہرست بھی مرتب اور مستند ہو جائے۔ اب ڈاکٹر مالک صاحب کے دور کے مذاکرات کی کہانی، ایک بیانیہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مذاکرات شروع کئے جنہیں ڈی ریل کیا گیا ،کیا ان مذاکرات کی منظوری بلوچستان کابینہ نے دی تھی؟ کیا کبھی ان مذاکرات پر بلوچستان اسمبلی میں بحث ہوئی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات کے علاوہ اور کس بلوچ رہنما سے بات چیت یا مذاکرات کئے؟ اگر صرف ان دو افراد سے مذاکرات کئے جارہے تھے تو یہ کتنے موثر تھے اسکی حقیقت حال ہی میں 26اگست 2024ء کو نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر طشت ازبام ہو چکی،جب ڈیرہ بگٹی میں ایک پٹاخہ نہیں پھٹا لیکن بلوچستان کے مختلف علاقوں میں معصوم افراد کا قتل عام کیا گیا۔ اس وقت دہشت گردوں کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر ،بشیر زیب، واحد قمبر سمیت دیگر لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں کئے گئے؟ حامدمیر صاحب نے کالم میں لکھا کہ نواب اکبر خان بگٹی، ایوب خان کے حکم پر جیل بھیجے گئےجبکہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی کو کسی سیاسی مقدمے میں جیل نہیں ہوئی انہیں اپنے چچاہیبتان خان کے قتل پر رائج الوقت قوانین کے تحت 302کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ان کے اعترافی بیان کے بعد معزز عدالتوں سے سزا ہوئی اور پھر قبائلی رسم کے تحت لواحقین کے خاندان سے قتل کا تصفیہ کیا گیا۔ اب 2006ء کے کچھ حقائق یہ ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی نے پشینی کے مقام پر 21جون 2002ء میں ریاست کیخلاف پہلا فراری کیمپ قائم کیا اور 2002ء میں نواب اکبر خان بگٹی کی جماعت کے لوگ اسمبلیوں میں موجود تھے اس وقت بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہو رہا تھا نواب نوروز خان کے واقعے پر میرصاحب اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے ایک مہربان دوست سے پوچھیں کہ زہری میں ایک قبیلے نے نواب نوروز خان سے مذاکرات کیلئے مولا کے مقام پر کیوں پڑائو ڈالا تھا؟
اگر انہیں جواب نہ ملے تو وہ کو ئٹہ تشریف لائیں ہم انہیں اس مقام کا دورہ کروائیں گے، حامد میر صاحب نے اس آرٹیکل میں میری ذات کو اس صورتحال کا بینیفشری قرار دیا ہے۔ میر صاحب جب آپ پر کراچی میں گولیاں برسائی گئیں اگر اس لمحے کوئی آپ کو ان گولیوں کا بینفشری قرار دیتا تو آپ پر ایسے ہی گزرتی جیسے 380 قبیلے اور خاندان کے افراد کی جانیں دینے کے بعد آپ مجھے اس جنگ کا بینیفشری قرار دے رہے ہیں ، میر صاحب آپ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی ذات پر ہونیوالے جانی حملے اسکے علاوہ ہیں انکا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میرا اور بلوچستان میں بسنے والے ہر محب وطن پاکستانی کا سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے ہمیشہ یہ گلہ رہتا ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے جب معصوم لوگوں کی قتل و غارت ہوتی ہے تو ان کیلئے اس طرح سے آواز بلند نہیں کی جاتی۔ حال ہی میں مستونگ اور تربت میں جس طرح معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا اور موسیٰ خیل پنجگور اور دکی میں معصوم مسافروں اور مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا اس پر میڈیا میں کیوں بات نہیں ہوئی ایسے واقعات کی مثال نہ تو بلوچ روایات میں موجود ہے اور نہ تاریخ میں اس طرح کے سیاہ کرتوت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے بلوچستان کے حوالے سے میری جماعت پیپلز پارٹی مذاکرات کی داعی ہے لیکن مذاکرات کس کیساتھ کریں اس حوالے سے ہم یا ہماری حکومت یا ہماری جماعت کنفیوزنہیں اگر ان مذاکرات کیلئے ڈاکٹر اللہ نظر بشیر زیب تیار ہیں تو ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں بصورت دیگر مذاکرات ان سے بے سود ہیں جن کی ملاقات سابق وزیر دفاع سے حامد میر صاحب نے خلیجی ملک میں کروائی تھی۔ بلوچستان کے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی تجاویز دینے والوں کو ہماری روزِ اول کی بلوچستان اسمبلی میں کی گئی وہ بات چیت کیوں بھول جاتی ہے جس میں ہم نے پہلے ہی روز تمام افراد کو بات چیت کی دعوت دی؟ اگر کوئی بات چیت کیلئے تیار ہی نہیں اور پرتشدد راستے پر گامزن ہے تو کیا ریاست خاموش تماشائی بن کر بے گناہ مزدوروں اور عام پاکستانی کو شہید ہونےکیلئے ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ آخر میں ایک نکتے پر آپ کی ستائش کہ آپ اور میں اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان کی آزادی ممکن نہیں تو بلوچ قوم خود فیصلہ کرے کہ اس لاحاصل جنگ سے کیا فائدہ ؟ ماسوائے بیگناہ لوگوں کے قتل و غارت اور بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ کے؟ آج نہیں تو چند سال بعد یہ ثابت ہو جائے گا کہ بلوچ اور بلوچستان کی خیرخواہ موجودہ حکومت ہے جو بلوچ بچوں اور بچیوں کو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی بھیج رہی ہے یا وہ لوگ جو تعلیمیافتہ نوجوانوں کو تشدد کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ حامد میر صاحب، بطور وزیراعلیٰ میری آٹھ ماہ کی کارکردگی پراگر آپ تنقید برائے اصلاح کرینگے اسے بسرو چشم قبول کرینگے لیکن جب جب آپ تاریخ کو مسخ کرینگے تو اس کا مدلل جواب انہی صفحات پر آپ کو ملے گا۔ آج اس آرٹیکل میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ اگر بلوچستان میں امن چاہتے ہیں تو یک طرفہ بیانیہ بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں، حقائق رپورٹ کریں۔ آئیں اس بلوچستان کی بہتری کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس میں کون کتنا کامیاب ہوگا یہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیں اور آخر میں حامد میر صاحب سے کسی بھی ٹی وی چینل پر بلوچستان کے حوالے سے مذاکرہ کرنے کو تیار ہوں اس کی میزبانی خودمیر صاحب کریں یا سلیم صافی صاحب جیسے زیرک صحافی سے کروائیں۔ پاکستان ہمیشہ زندہ باد