اسلام آباد ہی نہیں پورا پاکستان یوں محصور ہے جیسے تاتاریوں کا لشکر سب کچھ تہس نہس کرنے آرہا ہو۔ تمام مرکزی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، ریل کا نظام معطل ہے، انٹرنیٹ دستیاب نہیں، جاں بلب مریض تڑپ رہے ہیں، پہلے سے طے شدہ تقریبات کو منسوخ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، بچے پوچھ رہے ہیں کیا کوئی آفت آنیوالی ہے اور میں گھر میں بیٹھا دستور پاکستان کی اس سبز کتاب پر غور کررہا ہوں جس میں طے کیا گیا تھا کہ اس ملک کا نظام کیسے چلایا جائیگا۔ ابتدائی، ثانوی، تقریباً حتمی، حتمی، قطعاً حتمی اور آخری حتمی کال دینے والوں کا اصرار ہے کہ آئین نے انہیں پر امن احتجاج کا حق دیا ہے اور حکومت ریاستی جبر کے ذریعے ان سے یہ حق نہیں چھین سکتی۔ اس حوالے سے بنیادی حقوق کے باب میں 16ویں شق کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ،ہر شہری کو پرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق حاصل ہوگا۔ لیکن ادھوری بات کرنیوالے یہ نہیں بتاتے کہ اس سے پہلے والی شق میں کیا کہا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 15کے مطابق ’’ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفاد عامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے اور اسکے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اسکے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اورآباد ہونے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘ یعنی شہریوں کو ہر دو طرح کے حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کے مواقع بھی اور پرامن احتجاج کی سہولت بھی۔ مگر نقل وحرکت کی آزادی کو پہلے بیان کرنے کا مطلب ہے کہ ترجیحاتی اعتبار سے یہ حق مقدم ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ روایت چل نکلی ہے کہ کوئی بھی آئین کے آرٹیکل16 کی جگالی کرتے ہوئے دھرنا دیکر بیٹھ جاتا ہے یا پھر اسے روکنے کیلئےحکومت رکاوٹیں کھڑی کرکے شہروں کو بندکر دیتی ہے اور آرٹیکل 15کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کیا ان کروڑوں شہریوں کے کوئی حقوق نہیں جو حقیقی آزادی جیسی نو ٹنکیوں اور نئے پاکستان جیسی شعبدہ بازیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں، گھر کا چولہا جلانے کے لئے روزگار کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کا گھر سے نکلنا دشوار کر دیا گیا ہے؟ جب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے تو نونہالان انقلاب منہ بسور کر کہتے ہیں، راستے تو حکومت نے بند کئے ہیں، ہم نے تو کنٹینر نہیں لگائے، اس صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہے۔ قربان جائوں،اس معصومیت پر۔ جب کوئی گروہ ریاست پر حملہ آور ہونے کی نیت سے پیش قدمی کررہا ہو، برملا کہا جارہا ہو کہ جیل کے دروازے توڑ کر قیدی نمبر 804 کو رہا کروالیا جائیگا، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان عزائم کا اظہار کردیا گیا ہو کہ اب ہم مریں گے بھی اور ماریں گے بھی تو کیا حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے؟ وفاقی دارالحکومت کو شرپسندوں سے بچانے کی کوشش نہ کی جائے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ محاصرہ طویل ہونے پر شہر میں فاقوں کی نوبت آجائے تو حملہ آوروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے دفاع کرنے والوں کو ہی ہدف تنقید بنانا شروع کر دیں کہ یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں تو لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔ریاست کو اب اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، پشاور سے اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا سلسلہ ختم کرنے کا مستقل حل نکالا جائے۔ کیونکہ اتنے حملے تو شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی نے نہیں کئے ہونگے جتنی بار یہ گروہ یورش کرچکا ہے۔ یا تو اس فتنے کو جڑ سے اُکھاڑنے کا بندوبست کیا جائے یا پھر پرانی طرز تعمیر کے پیش نظر شہروں کو بلند و بالا فصیلوں سے محفوظ بنانے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اب اس شہر ناپرساں کو کنٹینروں سے بچانے کی تدبیر کارگر نہیں رہی۔ پورے ملک کا پہیہ جام کردینا اور لوگوں کو گھروں میں قید کردینا تو کوئی حل نہیں۔ اور پھر یہ معاملہ ایک آدھ ’’کال‘‘پر موقوف نہیں جب تک اقتدار و اختیار انکے حوالے نہیں کردیا جاتا، یہ تماشا یونہی چلتا رہیگا۔ 2014ء کے دھرنوں سے لیکر 24نومبر 2024ء کی فائنل کال تک، فتنہ و فساد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اور اب تو سیاسی استحکام ایک کال سے دوسری کال تک کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حکومت مسلسل مدافعانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے مثلاً موٹر ویز بند کرتے وقت کہا گیا کہ یہ شاہرائیں مرمت کی غرض سے بند کی جارہی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ منقطع کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں شارک مچھلیوں نے تاریں کاٹ کھائیں اسلئے سروس دستیاب نہیں۔ تکلف برطرف، یہ بھونڈے جواز پیش کرنے کے بجائے صاف صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ ملک کو عمران خان نامی ایک ناگہانی آفت کا سامنا ہے، شہروں کو اس سے بچانے کیلئے یہ سب احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ تحریک انصاف اب ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ خطرناک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ معمول کے حفاظتی اقدامات اور علاج کے ذریعے اسکا سدباب اور تدارک ممکن نہیں رہا۔ یہ ایک ناگہانی آفت ہے، اسے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے، لاک ڈائون نافذ کرکے، ویکسین کے بوسٹر شاٹ لگا کر کنٹرول کرنے اور شہریوں کو بچانے کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ یہ کنٹینر نامی اینٹی بائیوٹک بھی ایک دن کام کرنا چھوڑ دے گی۔ اگر اسے متعارف کروانے والے سائنسدان اثاثہ سمجھ کر مکمل طور پر ختم کرنے سے گریز کرتے رہیں گے تو معاملات مکمل طور پر انکے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔