آج جب میں اپنے اردگرد پھیلی مایوسی، بے یقینی اور شدید ترین معاشی واقتصادی مشکلات میں گھرے معاشرے اور خصوصاً مختلف وجوہات کی بنا پر عزم و ہمت اور ولولے سے عاری نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو کسی حد تک دکھ اور تکلیف کا شکار ہونے لگتا ہوں۔ لیکن اسی لمحے مجھے وہ تصورات آکر جھنجھوڑ دیتے ہیں جن میں ایک عام سے نوجوان نے انتہائی پسماندگی، مواقع سے محرومی اور مسلمانوں کے عامیانہ سے تاثر کے باوجود شدید ترین مسابقتی ماحول میں بھی اپنی راہیں ڈھونڈ نکالیںتو مجھے حوصلہ ملتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اتنے مشکل ترین حالات میں جب مسلمان معاشی سیاسی سماجی اور کاروباری حوالوں سے ایک طرح محکوم و مغلوب کے طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ ان نامساعد حالات میں آگے بڑھنے کا سوچنا بھی دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں تھا، لیکن پھر بھی ایک نوجوان جو میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہی ہوا تھا،1925میں اپنے والد کی اچانک نا گہانی وفات کے بعد اپنے ناتواں کاندھوں پر اپنے خاندان کا بوجھ اٹھائے عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور اپنے والد کے آلاتِ جراحی کے ایک چھوٹے سے مرمت خانے کو سنبھالتا ہے۔ اورمحض چند سالوں میں یہ نوجوان نا صرف اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ اس دکان کو انارکلی سے گڑھی شاہوروڈ پر کارخانے میں منتقل کر لیتا ہے ۔ اس وقت جب کہ معاشی تعلیمی کاروباری اور انتظامی امور میں انگریزوں ہندوئوں اوردیگر اقوام کا تسلط قائم تھا ، صرف سولہ سال کی عمر میںعملی زندگی میں قدم رکھنے والا یہ نوجوان، صرف پچیس سال کی عمر میں پہنچنے تک آلاتِ جراحی کی مرمت کی دکان سے سرجیکل انسٹرومنٹس اینڈ ہاسپٹل اپلائنسز کی برصغیر کی سب سے بڑی فیکٹری فیروز پور روڈ پر قائم کرنے میں کامیاب ہو کر دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس نوجوان نے 1936میں مسلمانوں کا سب سے پہلا مالیاتی ادارہ ’’سینٹرل ایکسچینج بینک لمیٹڈ‘‘ قائم کر کے قائدِ اعظم تک کی توجہ حاصل کر لی ۔صرف 32سال کی عمر میں اس نوجوان کی قائدِ اعظم سے باقاعدہ خط و کتابت کا آغاز ہو جاتا ہے۔تاریخ کے پنے بتاتے ہیں کہ کیسے اسکے اور قائدِ اعظم کے مابین مختلف موضوعات اور مسائل پر مدلل گفت و شنید ہوتی ہے ، قائد نا صرف اس نوجوان کو رہنما کے طور پر قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیںبلکہ اہم امور میں اس سے آرابھی طلب کرتے ہیں اور اس کی قابلِ عمل آراپر عمل پیرا ہو کر اس کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے ہیں۔ یہ نوجوان کولڈ اسٹوریج اور فرٹیلائزر کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے اہم صنعتیں برصغیر میں لانے پر غور کر رہا ہے جس کے لئے اس نے بیرون ممالک کے دورے کیے اور وہاں سے عملی تربیت اور اہم معلومات حاصل کیں۔ عالمی سطح پر اس کے تعلقات اہم شخصیات سے استوار ہو چکے ہیں۔ اس نے مختلف ممالک میں اپنے علاقائی کاروباری دفاتر بھی قائم کر لئے ۔ قائدِ اعظم کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی اور ڈس انفارمیشن یہ رہی کہ شاید قائدمجوزہ نوزائیدہ مملکت کے لئے معاشی صف بندی سے غافل تھے، حالانکہ اس کے برعکس قائد نے اس نوجوان کی ذمہ داری لگائی جس نے برصغیر کے اہم صنعت کاروں ، کاروباری حضرات اور سرمایہ داروں کی ملک کی معاشی صف بندی کے لئے قائد سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا ۔قائد نے مسلم لیگ کی ایک خصوصی معاشی کمیٹی بنائی جس میں یہ نوجوان بھی شامل تھا جس کی ایک ذیلی کمیٹی کی سربراہی اس نوجوان کے سپرد کر کے اس کے ذمے بہت اہم ٹاسک لگائے ۔ یہ نوجوان تاریخ کی گم کردہ داستانوں میں سے ایک داستان محمد رفیع بٹ تھے۔میرے ان دیکھے والد محمد رفیع بٹ۔ مجھے جب میری والدہ ان کے معمولات بتایا کرتی تھیں تو مجھے وہ قصے افسانے لگتے تھے۔ یہ داستانیں مجھ پر کچھ خاص اثر انداز نہ ہو پاتیں کیوں کہ والدہ کی کہانیوں کے برعکس مجھے نظر آنے والی حقیقی زندگی ان کہانیوں کے متضاد نظر آتی۔40سال کی عمرمیں، میں نے تگ و تاز کے بعد جب معاشی آسودگی حاصل کر لی تب مجھے ان کہانیوں کی حقیقت جانچنے کا خیال آیا تو میں نے چند ماہرینِ تاریخ کے ساتھ مل کر تحقیق شروع کی، تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے نا قابلِ تردید شواہداور قائد کے ساتھ رفیع بٹ صاحب کی خط و کتابت نے میری زندگی میں بھونچال برپا کر دیا ۔اپنے والد کی غیر معمولی داستانِ حیات نے یک بیک مجھے احساسِ محرومی کا شکار کر دیا اور میری آنکھیں نم رہنے لگیں ۔ میں اپنے ان دیکھے والد کی کمی کو شدت سے محسوس کرنے لگا۔ تحقیق کے اس سفر میں مجھے قائدِ اعظم کی شخصیت نے بھی بے حد متاثر کیا ۔ بد قسمتی رہی کہ قائدِ اعظم پاکستان کے قیام کے محض ایک سال بعد اور رفیع بٹ کی شہادت سے محض دو ماہ قبل دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر رفیع بٹ قائد کی زندگی میں شہید ہوئے ہوتے تو شاید قائدِ اعظم اس عظیم ساتھی کی قدر و منزلت اور قربانیوں سے قوم کو آگاہ کر پاتے۔ لیکن شاید قسمت کو یہی منظور تھا کہ قائد کی رحلت کے محض دو ماہ بعد 26نومبر 1948کو کراچی سے لاہور آتے ہوئے رفیع بٹ فضائی حادثہ کا شکار ہو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے اور اپنے پیچھے عزم و ہمت حوصلے اور کامیابیوں کی ناقابلِ یقین داستانیں چھوڑ گئے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)