• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی ریلیف پیکیج کے تحت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دسمبر سے فروری تک تین مہینوں کیلئے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 26 روپے تک کمی کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس ریلیف کو حاصل کرنے کیلئے صارفین کو گزشتہ سال کے مقابلے میں اس عرصے کے دوران استعمال کی گئی بجلی کے مقابلے میں 25 فیصد تک اضافی یونٹ استعمال کرنے ہوں گے۔ اس پر انہیں 26 روپے7 پیسے فی یونٹ کا فلیٹ ریٹ دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جاری اعلامیے کے مطابق گھریلو صارفین کو ٹیرف پر 11.42روپے سے 26روپے فی یونٹ ریلیف دیا جائے گا، کمرشل صارفین کو 13.46روپے سے 22.71روپے فی یونٹ ریلیف ملے گا جبکہ صنعتی صارفین کو 5.72روپے سے 15.05روپے فی یونٹ ریلیف دیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق صنعتی صارفین کو دسمبر تا فروری کے دوران بجلی کے کم سے کم اضافی استعمال پر 18فیصد یا 5روپے 72پیسے فی یونٹ اور زیادہ سے زیادہ اضافی استعمال پر 37فیصد یا 15روپے 5 پیسے فی یونٹ کی بچت ہو گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ حکومت نے انرجی ٹیرف میں کمی کر کے انڈسٹری کو جو ریلیف دیا ہے اس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری دوبارہ سے انڈیا، بنگلہ دیش اور ویت نام سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقت کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ واضح رہے کہ بجلی کی اضافی پیداوار کے باعث گزشتہ کئی سال سے حکومت کی طرف سے سردیوں کے موسم میں جب بجلی کے استعمال میں کمی ہوتی ہے تو اس طرح کا ریلیف پیکیج دے کر صارفین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بجلی کا زیادہ استعمال کریں۔ اس حوالے سے گزشتہ سال حکومت نے چھوٹی انڈسٹری کو بجلی کے بلوں میں 50فیصد اور بڑی انڈسٹری کو 25فیصد ریلیف فراہم کرنے کے علاوہ ’پیک آور چارجز‘ ختم کر دیئے تھے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں کو مستقل طور پر خطے کے دیگر ممالک کے مساوی کیا جائے تاکہ عالمی منڈی میں پاکستان کی مسابقت برقرار رکھی جا سکے۔حکومت کے حالیہ اقدام سے اگرچہ انڈسٹری کو مہنگی بجلی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافے کے بحران سے کسی حد تک ریلیف ملنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ انڈسٹری کی ترقی میں حائل مہنگی بجلی کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس حوالے سے حکومت کو طویل المدت بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صنعتی ترقی کے عمل کو بہتر طور پر آگے بڑھایا جا سکے۔ علاوہ ازیں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی میں ناقص ڈھانچے کی وجہ سے بجلی کے نقصانات میں اضافے کو کم کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ان اداروں میں بنیادی اصلاحات بے حد ضروری ہیں تاکہ ترسیل کے مسائل حل کرکے لائن لاسز اور دیگر نقصانات میں کمی لائی جا سکے اور میرٹ آرڈر کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔ پاکستان میں توانائی کا شعبہ طویل عرصے سے غلط پالیسیوں کے سبب قومی خزانے اور صارفین پر اضافی بوجھ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے توانائی کے شعبے میں مسابقتی مارکیٹ کے اصولوں کو رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صارفین کو مستقل بنیادوں پر سستی بجلی مسلسل فراہم کی جا سکے۔ ونٹرپیکیج کے تحت بجلی کی قیمت میں کمی ایک مثبت آغاز ہے لیکن اس کے دیرپا معاشی فوائدکیلئےپالیسی میں تسلسل ضروری ہے تاکہ صنعتی شعبہ طویل مدت بنیادوں پر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدوں کے تحت انہیں پہلے ہی کیپسٹی چارجز کی مد میں اس بجلی کی قیمت بھی ادا کی جا رہی ہے جو وہ بنا ہی نہیں رہے ہیں۔ اس لئے اگر بجلی کی قیمت میں مستقل طور پر کمی کر دی جائے تو انڈسٹری اور عام صارفین کو زیادہ بجلی کے استعمال پر راغب کرکے کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کی جانے والی اضافی رقم کی ادائیگی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام اس لحاظ سے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران توانائی پالیسی میں بار بار تبدیلیوں کے باعث انڈسٹری کی ترقی اور استحکام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے پاکستان میں توانائی کی طلب اور رسد کے تقاضوں کا جامع تجزیہ کرنے، توانائی کے تحفظ اور گرین انرجی خصوصاً شمسی توانائی کے فروغ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو یکم جنوری 2025ء سے انڈسٹری کے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی بند کرنے کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیک وقت سٹیم اور بجلی کی پیداوار کے باعث کیپٹو پاور پلانٹس انڈسٹری کیلئے ناگزیر بن چکے ہیں۔ اگر حکومت نے یکطرفہ طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد کیا تو کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی بندش سے انڈسٹری کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ جائے گی اور برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل ناممکن ہو جائے گی۔ حکومت کے اس اقدام سے مجموعی طور پر 1280 کیپٹو پاور پلانٹس متاثر ہوں گے جن میں سے 800 سوئی سدرن گیس کمپنی اور 480 سوئی ناردرن گیس کمپنی سے گیس حاصل کرتے ہیں۔ حکومتی زعماء کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس خودکار ٹیکسٹائل مشینری کو بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے اور وولٹیج میں اتار چڑھاؤ سے بچانے کیلئے ضروری ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات سے دوچار نیشنل گرڈ پر مکمل انحصار انڈسٹری کی طلب کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے اور اس سے ٹیکسٹائل ویلیو چین میں حساس آلات کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

تازہ ترین