احتجاج اور جمہوری اقدار
جب تک جمہوریت عملاً موجود نہ ہو جمہوریت فسطائیت ہے، شاید ہمارے ہاں احتجاج، جمہوریت کی رسوائی کا سبب بن جاتے ہیں، اسی طرح اکثر و بیشتر ہمارے خواب کثرت تعبیر سے بکھر کر رہ جاتے ہیں پورے نہیں ہو پاتے، چند روز پہلے کے احتجاج کا بھی وہی حشر ہوا جو ہم نے ابتدائی الفاظ میں بیان کر دیا۔ مزید برآں یہ کہ بہت سے تجزیے بھی ہمیں اصل مفہوم اور حل سے دور رکھتے ہیں کہ اعتدال ہی توازن ہے اور عدم توازن افراط و تفریط پر منتج ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی چونکہ نئی تھی اس لئے اسے آزمانے کو ہر کوئی لپکا مگر غلط فیصلوں کے باعث یا انتہا پسندی کے سبب آج یہ جماعت شاید جماعت بھی نہیں رہی حکمرانوں نے بھی کئی جگہوں پر ٹھوکر کھائی مگر حریف جماعت کی غلطیوں نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ 126دن کے دھرنے سے لیکر 24تاریخ کے احتجاج تک محض غلطیاں ہی دہرائی گئیں بانی سے لیکر کارکن تک ہم آہنگی کا فقدان رہا 9مئی سے لیکر تابہ امروز شدت پسندی نے اس جماعت کو کہیں کا نہ رکھا حزب اقتدار سے بھی بے اعتدالیاں سرزد ہوئیں مگر پی ٹی آئی کی افراتفری کی سیاست اس کیلئے سرخروئی کا سبب بنی۔ اب یہ کہنا کہ پی ٹی آئی باقاعدہ ایک متوازن سیاسی جماعت کی شکل میں نیا جنم لے گی دیوانے کا خواب ہے ہمارا من حیث القوم ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم جو اچھی بات کرتے ہیں اسے واضح نہیں ہونے دیتے مثلاً حکومت جس ارزانی کا دعویٰ کرتی ہے وہ بازار میں نظر نہیں آتی البتہ یہ کریڈٹ حکومت کو دینا ہوگا کہ کس قدر اس نے سمت کو درست کر لیا ہے احتجاج لوگوں کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ وہ اپنے آئینی جمہوری دائرے سے باہر قدم نہ رکھیں احتجاج اور انقلاب میں بڑا فرق ہے انقلاب کسی چیز کو الٹا دینے کا نام ہے اور یہ بالعموم خود بخود اٹھتا ہے اور خود ہی اپنی قیادت بھی ڈھونڈلیتا ہے ویسے بھی انقلاب ہماری ضرورت نہیں ایک پرامن صالح احتجاج سے مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے اگر احتجاج کے نام پر غلطیاں نہ کی جاتیں تو یوں سارا ملک بند کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی، وقت کی مناسبت بھی ایک بنیادی احساس ہے جو کہ ہم سب میں موجود نہیں ہم بالعموم صحیح قدم غلط وقت پر اٹھاتے ہیں اور نتائج غلط نکلتے ہیں۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
وزراء کی دانشمندانہ خوش بیانیاں
وزراء کرام کی خدمت اقدس میں ان کی خوش بیانیوں پر انہیں سو سو بار مبارکبادیاں، اگر حریف کے پاس پٹرول کے مٹکے ہوں تو وزیروں کے ہاتھ میں جلتی تیلیاں، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی ہو جاتا ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے ہر احتجاج ِبے لاج کے موقع پر وزیر داخلہ کے علاوہ کسی حکومتی نمائندے کو ہوش وحواس میں نہیں دیکھا الغرض منظر یہ ہوتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اور چاروں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی یہ تو غیبی قوت نہیں چاہتی کہ یہ گھر جل کر راکھ ہو جائے ورنہ ہم نے تو اپنا گھروندا پھونکنے کا ہر جتن کیا ہمارے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں جو چند ایک دوست ہیں ان کو بھی گنوانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں خدارا اب اپنا اچھا برا سوچ کر چلیں ورنہ یہ پاکیزہ نظریئے پر قائم ریاست کہیں مالک ارض و سما واپس نہ لے لے، ہم حکمرانوں کو برا کہتے ہیں مگر مارکیٹوں میں بیٹھے تاجر اور دکاندار ٹکے کی چیز سو روپے میں بیچتے ہیں اور پھر اسی نرخ کی بلندی کو نیچے آنے پر بھی نیچے نہیں لاتے کیا ان کے خلاف بھی کسی نے کبھی احتجاج کیا ۔ایک بھکاری کی ہتھیلی پر 10روپے کا نوٹ رکھ دیا تو اس نےیہ کہہ کر واپس کر دیا بائو جی ’’ہن ساڈی اے قدر رہ گئی اے ،مہنگائی ویکھو تے اے نوٹ دیکھو‘‘ اگر ہمارے امیر وزیر و مشیر قابل نہ ہوتے تو آج ہم منفی بلندیوں پر فساد فی الارض کے پرچم نہ لہرا رہے ہوتے صلاحیت تو بس اتنی سی رہ گئی ہے کہ وقفے ڈال وصول کر انگریزی نہ بولتے، سب سے بہترین خوش بیانی ایک صوبے کی وزیر اطلاعات او رسندھ کے ایک وزیر باتدبیرکی ہوتی ہے، بہرحال کم ایک سب سوا سیر اور 24قیراط کاسونا ہیں بخدا ہمارے تو ارباب بست وکشاد اپنی قومی زبان بھی روانی سے نہیں بولتے۔ اگر وزیروں سے وزارت واپس لے لی جائے تو ان کے پاس دولت کے سوا کیا باقی رہے گا یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی بھی خوب مزے میں ہے کہ ہر سیکرٹری اندر ہی اندر کہتا ہے ’’زبان یار من ترکی، ومن ترکی نمیدانم‘‘ (میرے ’’وزیر‘‘ کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا) کیا کبھی کسی کو یہ خیال آیا ہے کہ زیر زمین اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ زندگی تو رقص شر ر ہے جس کی عمر سے کوئی واقف نہیں ۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
احتجاج جاری رہے گا
ایک جماعت اب بھی کہتی ہے احتجاج جاری رہے گا شاید یہ اس لئے کہا جا رہا ہو کہ آئندہ احتجاج کو درست انداز میں برپا کیا جائے گا، گویا ’’بر مزارِ ما غریباں، نے چراغِ نے گلے‘‘ (مجھ اجڑے ہوئے کے مزار پر نہ ہی کوئی چراغ جلتا ہے اور نہ کوئی پھول کھلتا ہے) جس اٹھان کےساتھ ایک مخصوص جماعت اٹھی تھی اگر وہ ذرا سا بھی دانشمندی سے کام لیتی تو آج اقتدار میں ہوتی، لوگ نے دل کھول کر اس کے جلسوں جلوسوں میں شرکت کی اس امید پر کہ شاید یہ تیسری جماعت انہیں خوشحال کر دے گی۔ اب تو چڑیاں چگ گئیں کھیت البتہ چڑی مار باقی ہیں چڑیوں کیلئے بھی کچھ باقی نہ رہنے دیا مگر امید پر دنیا قائم ہے وہ دنیا جس میں ہمارا ملک شاید شامل نہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اگلے الیکشن تک خاموشی قائم رہے اور ایک باطنی احتجاجی اندر ہی اندر سلگتا رہے، پکتا رہے اور پھر عوامی ر ائے کے ساتھ کوئی پارٹی بھاری مینڈیٹ لیکر برسراقتدار آ جائے مگر جو بھی انتخابات ہوں صاف ستھرے ہوں ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور ہم بھی کہہ سکیں کہ ہمارے ہاں بھی نہ صرف جمہوریت کا پودا ہے بلکہ درخت ہے جس کا پھل ہر خاص و عام کھا رہا ہے کیا 77سالہ بے عمل جمہوری دور سے ہم کچھ سیکھ پائیں گے غلطیاں نہیں دہرائیں گے منافع کمانے والے دہرا فائدہ اٹھانے کی ناجائز کوشش نہیں کریں گے امیر، امیر تر ہو چکا غریب کو بھی سر اٹھانے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ بھی سکھ کا پہلا سانس لے سکے۔ اس ملک خدا داد کو اللہ نےسب کچھ دیا ہے ایک وزیر صاحبہ نے فرمایا ’’الحمد للہ 9مئی ٹو کے پلان کو ناکام بنا دیا گیا‘‘ کیا اس بیان سے آگ بجھ جائے گی غلطی کرنے والے کو بار بار غلطی یاد نہ دلائی جائے وزرا خواتین و حضرات کام کر دکھائیں اور یہ کہ ’’تاریخ میں کوئی انقلاب اتنی جلدی نہیں بھاگا جتنا کل دیکھا‘‘ ان باتوں سے غلطی کرنے والا ڈھیٹ بن جاتا ہے تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے اگر فریق مخالف تمیز کے دائرے سے باہر نکلے تو اس کے ساتھ باہر نہ نکلا جائے ’’اللہ کا شکر ہے کہ بلائے بودنے بخیر گزشت ‘‘ (خدا کا شکر ہے کہ مصیبت آئی بخیرو خوبی الٹے پائوں چلی گئی)