• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ریاست مخالف تحریک چلی وہ ناکامی سے دوچار ہوئی کیونکہ ریاست کو طاقت اور زور زبردستی سےاپنے مطالبات منوانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان چوبیس کروڑ عوام کا ملک ہے ان میں سے چند کو گمراہ کر کے اور جتھے بنا کر مرکز پر حملہ آور ہونے والوں کو پوری قوم کیتائید و حمایت حاصل ہے نہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ چند کرائے کے لوگوں اور ناسمجھ نوجوانوں کو ورغلانے والوں کے سامنے ہاتھ کھڑے کرے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے چلنے والی تحریک کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ مخصوص جماعت کا ہوا۔ اب مسلسل ناکامیوں کے بعد عبرتناک انجام سے دوچار ہونے والوں نے اداروں کے خلاف سوشل میڈیا مہم شروع کر رکھی ہے جو جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ پاکستان مخالف لوگ آخری حد تک کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ملک ہر لحاظ سے کمزور و ناکام اور بدنام ہو جائے لیکن پہلے کی طرح ان کی حالیہ کوشش بھی ناکامی و نامرادی سے دوچار ہو جائے گی۔

ایس آئی ایف سی کے قیام سے بھی ایسے لوگوں کو بڑی تکلیف ہوئی تھی یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی گمراہ کن مہم چلائی جارہی تھی۔ ایس آئی ایف سی کے قیام اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اللہ کریم کا فضل اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کوششوں کا ثمر ہے۔ آج پوری دنیا سرمایہ کاری اور امداد کے لئے ایس آئی ایف سی پر اعتماد کرتی ہے۔ بلاشبہ اس میں موجودہ حکومت کی کاوشیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی معاشی صورتحال میں واضح بہتری قوم کے سامنے ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ، اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی چڑھاؤ اور دوست ممالک کے سرمایہ کاری میں شامل ہونے کے معاہدے ایس آئی ایف سی ہی کی بدولت ممکن ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کی معاشی ترقی کے مستقبل میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رہے گا۔ ایس آئی ایف سی ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے روشنی کا مینار ہے لیکن کچھ لوگ اس ملک کی ترقی نہیں بلکہ بربادی کے درپے ہیں وہ ہر طریقے سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کمزور تر ہو۔ سب جانتے ہیں کہ کون سے ممالک کی یہ خواہش ہے اب سمجھ لینا چاہئے کہ کون کس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

9 مئی کے بعد آئے دن وفاق پر چڑھائی اور خونریزی کی خواہش و کوشش کر نے والے تو عدالتی حکم کی بھی پروا نہیں کرتے۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں بالخصوص ریڈ زون میں ہر قسم کے جلسہ جلوس پر پابندی عائد کی تھی پھر 24 نومبر کو اسی ریڈ زون میں داخل ہونے کی زور زبردستی سے کوشش کیوں کی گئی۔ قانون سے انحراف کا اور کیا ثبوت چاہئے کہ اسلام آباد میں جلسہ کرنے کیلئے قانونی اجازت کو بھی ضروری اور اہم نہیں سمجھا گیا۔ کیا کسی بھی طرح اس کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ چند ہزار لوگوں کو ساتھ مل کر ریاست پر بار بار حملہ آور ہونےدیا جائے اور ریاست کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کیا جائے ۔ کیا اس طرح کسی ادارے کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ شاید ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔

کیا کوئی سیاسی جماعت غیر ملکی لوگوں کو ساتھ لا کر اپنے ہی وفاق پر حملہ آور ہونے کا سوچ سکتی ہے۔ دیہاڑی داروں اور ورغلائے نوجوانوں کیساتھ مسلح ہو کر حملہ آور ہونیوالوں نے فرار کیلئے پہاڑی راستوں کا انتخاب کیا اور ساتھ لائے ہوئے ’’کارکنان‘‘ کو چھوڑ کر ایسے فرار ہوئے کہ آج تک آپس میں ایک دوسرے کو وضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔ لاشوں کے ناکام پروپیگنڈے کا بھی وہی انجام ہوا جو اس جماعت کا ہوا۔

ان لوگوں کا مقصد ہرگز بانی کو رہا کروانا نہیں ہے۔ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ بانی رہا ہو جائے یہ پوری قوم جان چکی ہے۔ اب سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف گمراہ کن، شرمناک اور غلیظ مہم چلائی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے ورنہ ایسے جھوٹے اور گھٹیا پروپیگنڈے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کی ان تمام ریاست مخالف اور ملک کو کمزور کرنے کی حرکتوں کی وجہ سے نہ صرف بانی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے بلکہ خود ان کو بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ان کی توقعات کے برعکس اچانک بشریٰ بی بی نے پارٹی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیا یا یہ بانی کی ہدایت و مشورے پر ہوا اس بارے میں ابھی واضح نہیں ہے لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی ان لوگوں کے لئے نئی افتاد لیکر ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ اس لئے بشریٰ بی بی کو باہر نکلنے، بیانات جاری کرنے اور اجلاسوں میں شمولیت سے منع کیا گیا ہے۔ اب یہ بانی کو بھول گئے ہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو بچانے اور پارٹی قیادت میں حصہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ بس تھوڑا انتظار کیا جائے۔

تازہ ترین