وفاقی کابینہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پیر کو اپنے اجلاس میں کئی اہم فیصلے کئے جن میں وزارت داخلہ کی سفارش پر پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے قومی پالیسی کی منظوری بھی شامل ہے۔ اگرچہ پالیسی کے اہم نکات کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اجلاس میں وزیراعظم نے جو خطاب کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت 24 نومبر سے تین روز تک ہونے والے سیاسی احتجاج ، افرا تفری ، توڑ پھوڑ اور انسانی جانوں کے اتلاف کے پس منظر میں محسوس کی گئی ۔ حکومت نے اس ہنگامے کے دوران بتایا تھا کہ قومی خزانے کو روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جلسے جلوس اور اپنے حق میں پرامن مظاہرے سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں اور قانون اس کی اجازت بھی دیتا ہے مگر ان کی آڑ میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور انسانی جانوں سے کھیلنے کی کسی بھی ملک کے آئین میں اجازت نہیں ہے۔ احتجاج کی اس کال کے نتیجے میں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا ، حکومت کے علاوہ اپوزیشن نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پچھلے دنوںوفاقی دارالحکومت میں دھرنوں نے افراتفری اور ہیجان کا ماحول پیدا کر دیا تھا ۔ اس دوران توڑ پھوڑ کی گئی۔ پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو شہید اور زخمی کیا گیا اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے ملک کی عالمی سطح پر بے عزتی کرائی گئی اس کے نتیجے میں ایک ہی دن میں اسٹاک مارکیٹ ساڑھے تین ہزار پوائنٹس تک گر گئی جو احتجاج ختم ہوتے ہی پھر بحال ہو گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حالات کا رحجان مثبت ہو تو معاملات بڑی تیزی سے بہتر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس امر کو ایک بڑی خوش خبری قرار دیا کہ 70 ماہ بعد افراط زر ایک بار پھر کم ترین سطح پر آ گئی ہے جس کے آنے والے دنوں میں مثبت اثرات ہونگے۔ اب معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں اضافہ لیکر آنا ہے۔ افراط زر میں ریکارڈ کمی سے غربت میں کمی ہو گی جو غریبوں کیلئے آسودگی لے کر آئے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کی مدد سے افغانستان سے چینی کی اسمگلنگ زیرو ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پچاس کروڑ ڈالر سے زائد کی چینی برآمد کی گئی اور ملکی سطح پر بھی چینی کے نرخ کم ہوئے۔ پچھلی حکومت کے ایک منچلے وزیر نے قومی اسمبلی میں پی آئی اے کے جعلی پائلٹس اور جعلی ڈگریوں کی بات کی جس سے اس ادارے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی نجکاری میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ انہوں نے معیشت میں بہتری کے بڑھتے ہوئے آثار کا ذکر کرتے ہوئے جی ڈی پی گروتھ میں اضافے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید کمی کی توقع ظاہر کی اس سمت میں مزید محنت کر کے تمام اقتصادی اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں حکومت نےاس محاذ پر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کے ثمرات آنے والے دنوں میں دیکھے جا سکیں گے ۔ ایف بی آر محصولات کا ہدف پورا کرے تو معاشی حالات میں یقیناـ بہتری آئیگی۔ انتہا پسندی کسی بھی شکل میں ہو ملک و قوم کیلئے ہمیشہ مسائل پیدا کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف غریب اور کاروباری طبقہ بلکہ پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اپنے جائز مطالبات منوانے کیلئے ہمارے آئین میں پرامن احتجاج اور جلسے جلسوں کی رعایت موجود ہے مگر انہیں امن و امان میں اور شہری زندگی کے معمولات میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔ مہذب ملکوں نے اس حوالے سے قوانین اور ضابطے مرتب کر رکھے ہیں جن کی پابندی ہر گروہ اور تنظیم پر لازم ہے۔ کئی ملکوں نے احتجاج اور مظاہروں کیلئے مناسب مقامات مقرر کر رکھے ہیں لوگ آتے ہیں ،اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں احتجاج کیلئے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنا کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے جس سے ملحق ڈپلومیٹک انکلیو میں غیر ملکی سفارتی عملے کیلئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ رحجان ختم ہونا چاہئے اور دارالحکومت کے باہر کوئی جگہ مخصوص ہونی چاہئے۔