• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف سے میں نے سوال کیا کہ امریکہ نے 2022ءمیں اس خطے کے سمندر کی اسٹرٹیجک حوالے سے انڈو پيسفک پالیسی جاری کی تھی اور اس میں واضح طور پر انڈیا کو انڈو پيسفک حوالے سے جسے ،چین ایشیا پیسفک کہتا ہے بہت کلیدی اہمیت کا کردار دیا گیا بلکہ اس کی بحر ہند میں بالا دستی قائم کروانے کی واضح طور پر حکمت عملی محسوس ہوتی ہے ۔ یقینی طور پر امریکی اس پالیسی کی وجہ چین سے مسابقت کو قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ان کا ہدف نہیں مگر انڈیا کے حوالے سے اتنے بڑے تزویراتی اقدام کے اثرات لامحالہ پاکستان پر مرتب ہونگے اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ کچھ عرصہ قبل ہمارے آس پاس انڈیا کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی کہ اس کا عمان سے معاہدہ ہو گیا کہ انڈیا کے بحری جہازوں کو عمان سمندر میں ہی دوبارہ پیٹرول بھر کر دیا کرے گا۔ انڈیا کی بحریہ کو یہ سہولت اسکی آپریشنل صلاحیتوں میں بہت اضافہ کر دے گی۔ اگر خدا نخواستہ پاک انڈیا جنگ چھڑ گئی تو یہ سہولت پاکستان کے گلے پڑ جائے گی۔ پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت اہم مسئلے کا ذکر کیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان بحریہ مکمل طور پر آگاہ ہے، اپنی اس ذمہ داری سے قطعی طور پر غافل نہیں اور پاکستان کی بحری حدود کی محافظ اور قومی مفادات کی نگہبان ہے۔ قوم کو اس حوالے سے مطمئن ہونا چاہئے کہ پاک بحریہ کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ امریکہ کی انڈو پيسفک پالیسی 2022ءمیں انڈیا کو اہمیت دی گئی اور پاکستان اسکے مضمرات سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ ہم سے عمان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر خدانخواستہ پاک انڈیا جنگ چھڑ گئی تو ایسی صورت میں عمان انڈیا کو سمندر میں ہی دوبارہ پیٹرول بھرنے کی سہولت نہیں دےگا۔ بحریہ کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کی حفاظت کیلئے ہم چوکس ہیں اور وہاں پر غیر قانونی معاملات کو روکنے پر بھی ہم مکمل طور پر مستعد ہیں۔

میں پاک بحریہ کی جانب سے میری ٹائم سیکورٹی کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا حصہ تھا جس میں مسلح افواج کے سینئر افسران، سینئر بیورو کریٹس اور دانش ور حضرات شامل تھے اور ہمارے گروپ کی بحریہ کے سربراہ سے مختلف امور پر سوال و جواب کی نشست ہو رہی تھی۔ اس ورکشاپ کے مقاصد میں تھا کہ پاکستان کی بحری حدود اور اس سے متعلقہ معاملات کو پاکستان کس نظر سے دیکھ رہا ہے اور اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے۔ انکی گفتگو سے محسوس ہوا کہ پاک بحریہ کی قیادت نے حالات اور تزویراتی امور پر بہت گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور انکے پاس نئے مسائل پر حکمت عملی تیار ہے جو خوش آئند امر ہے۔ نیما پاک بحریہ کا ایک تھنک ٹینک ہے اس کے سربراہ ایڈمرل (ریٹائرڈ) سعید سے میں نے پوچھا کہ آپ نے بلا شبہ میری ٹائم سیکورٹی پر بہت بڑی کانفرنس منعقد کروائی تھی جس میں میری ٹائم کے سیکرٹری جنرل بھی پہلی دفعہ پاکستان آئے مگر کیا ہم ہانگ کانگ کنونشن کی جانب سے متعین پروٹوکولز کو اگلے سال جون تک مکمل کر لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ دیانت داری سے اس کا جواب ہے کہ یہ ممکن نہیں ہو گا اور ابھی اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مزید تین چار سال درکار ہونگے۔ اسی طرح میری ٹائم سیکورٹی کے سربراہ سے میں نے پوچھا کہ پاکستان میں آپ کا ادارہ، اے این ایف اور کوسٹ گارڈز بحری امور میں ایک نوعیت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی یا تو امریکی بحریہ ہے یا امریکی کوسٹ گارڈز، تو ہمارے یہاں اتنے ادارے کیوں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی بات درست ہے مگر ہم سارے ادارے ایک دوسرے سے مکمل طور پر تعاون کرتے ہیں اور ملکر کام کر رہے ہیں۔

اگلے دن ہمارے گروپ کا سفر سمندر میں تھا اور ہم نے کم و بیش سارا دن سمندر میں ہی گزارا۔ ہمیں پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس ٹیپو سلطان پر کھلے سمندر میں لے جایا گیا۔ میں نے نیوی کے افسران سے پوچھا کہ اس جہاز کا نام شیر ميسور ٹیپو سلطان کے نام پر کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ برصغیر کا پہلا حکمران تھا کہ جس نے بحری فوج قائم کرنے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ بد قسمتی سے اپنی اس کوشش میں ناکامیاب ہو گیا تھا۔ نیوی افسران نے جواب دیا کہ پاکستان بحریہ میں انیس سو انچاس سے ٹیپو سلطان نام کے بحری جہاز موجود ہیں اور جس پر آپ سوار ہیں یہ تیسرا جہاز ہے، یہ نام رکھنے کی وجہ ٹیپو سلطان کی بے مثل بہادری ہے۔ اس جہاز پر ہمیں پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ دکھایا گیا کہ کیسے بحری حدود میں غیر قانونی سرگرمیوں کی بیخ کنی کی جاتی ہے اور اسی طرح سے اگر بحری قزاق کسی جہاز کو لوٹنے یا اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کا قلع قمع کیسے کیا جاتا ہے۔ پاک بحریہ اس میں اپنے ہیلی کاپٹروں کا کیسے استعمال کرتی ہے، یہ سب دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ گئے تو ہم سرکریک اور گوادر بھی مگر اس کا ذکر اگلے کالم پر اٹھا رکھتے ہیں۔

تازہ ترین