شہزادی ڈیانا نے شہزادہ چارلس (موجودہ بادشاہ برطانیہ) سے علیحدگی کے بعد اپنا عوامی تاثر بہتر بنانے کےلیے جان بوجھ کر تشہیری حکمتِ عملی اختیار کی اور بڑی مہارت سے کنگ چارلس سمیت شاہی محل سینٹ جیمز پیلس کو منفی دکھانے کی کوشش کی۔
برطانوی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ شہزادی ڈیانا کے ساتھ کام کرنے والا عملہ بڑی محنت سے ایسے طریقے تلاش کرتا تھا جن کے ذریعے شاہی محل کی سرگرمیوں کو میڈیا میں منفی طور پر پیش کیا جا سکے۔
1995ء کی سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات میں بھی انکشاف کیا گیا کہ لیڈی ڈیانا کے عملے نے شاہی محل کو پیچھے چھوڑنے کے لیے بہت محنت کی۔
ایک اہلکار کے مطابق لیڈی ڈیانا کی ٹیم کی پوری توجہ اس بات پر ہوتی تھی کہ میڈیا میں کنگ چارلس کے مقابل شہزادی کو کیسے زیادہ نمایاں اور مثبت دکھایا جائے۔
محکمہ خارجہ آئرلینڈ کے ایک سابق اہلکار جوہیز نے انکشاف کیا کہ 1995ء میں کنگ چارلس کے کامیاب دورۂ آئرلینڈ کے بعد شہزادی ڈیانا کی پریس سیکریٹری سینڈی ہینی نے بھی اسی نوعیت کے ایک علیحدہ دورے کا شہزادی کو مشورہ دیا تھا۔
شہزادی ڈیانا نے 1990ء کی دہائی میں ’بی بی سی‘ کے پروگرام پینوراما میں مارٹن بشیر کو دیے گئے اپنے مشہور انٹرویو میں انسانیت کے لیے اپنے کام پر بات کی تھی۔
اِن کا کہنا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ لوگ خود کو غیر اہم اور تنہا محسوس کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو محبت دینے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔
انٹرویو کے دوران شہزادی ڈیانا نے کہا تھا کہ ابتداء میں اُنہوں نے عوامی دلچسپی کی وجہ اپنے شوہر کنگ چارلس کے ساتھ اِن کے اچھے کاموں میں ساتھ دیا مگر وقت کے ساتھ اِنہیں احساس ہوا کہ اِنہیں صرف ایک شو پیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔