2 دسمبر کو برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین تعلقات کا آغاز 1960 کی دہائی سے ہی ہو گیا تھا جب یو اے ای کی برطانوی سامراج سے آزادی کا مرحلہ شروع ہوا تھا۔1971 ءمیں جب سات عرب ریاستوں کے اتحاد سے متحدہ عرب امارات وجود میں آئی تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے یو اے ای کو تسلیم کیا اور دوسرا ملک تھا جس نے وہاں پر سفارت خانہ قائم کیا۔ متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زائد بن سلطان النہیان نے پاکستان کیساتھ پہلے دن سے ہی مثالی تعلقات استوار کر رکھے تھے جنہیں آج بھی انکے جانشین شیخ محمد بن زائد، مضبوط بنیادوں پر استوار کیے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے دبئی ایک بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں کے حکمران پرنس محمد بن راشد المکتوم ایک ترقی پسند روشن خیال اور بہادر حکمران ہیں۔ انکی سربراہی میں دبئی نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔یہ انکے انداز حکمرانی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کی بڑی کمپنیوں کے مرکزی دفاتر دبئی منتقل ہو چکے ہیں جبکہ کاروباری اعتبار سے یہ دنیا کا بڑا کاروباری مرکز بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متحدہ عرب امارات نے بھارت کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فیصلہ کن مذاکرات کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے۔ متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زائد بن سلطان النہیان نے نہ صرف پاکستان کیساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں خصوصی دلچسپی لی بلکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ لاہور اور رحیم یار خان میں شیخ زائد اسپتال، شیخ زائد میڈیکل کالج، شیخ زائد انٹرنیشنل ایئر پورٹ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان میں دلچسپی کے خصوصی مظہر ہیں۔ متحدہ عرب امارات، پاکستان میں تیل، گیس، ٹیلی کمیونیکیشن، رئیل اسٹیٹ، ایوی ایشن، بینکاری اور توانائی کے بڑے شعبوں میں سرمایہ کاری کر چکا ہے یو اے ای سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں جن میں اماراتی نیشنل کمپنی، اماراتی پٹرولیم انویسٹمنٹ کمپنی، اماراتی ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات تقریباً 18 لاکھ پاکستانیوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، پائلٹس، سکیورٹی اہلکار، صنعتی و زرعی مزدور، تعمیراتی ماہرین و مزدور نہ صرف متحدہ عرب امارات کو ترقی یافتہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ ہر سال تین سے چار بلین ڈالر کی بھاری رقم پاکستان بھیج کر پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پاکستانی ماہرین نے امارات میں متعدد اہم اداروں بشمول ایوی ایشن انڈسٹری، پولیس، محکمہ صحت، اور تعلیمی اداروں کے قیام میں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز نے ایمریٹس ائیر لائن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور امارات ایئر لائن کی پہلی پرواز 1985ءمیں دبئی سے ہی کراچی پہنچی تھی۔ متحدہ عرب امارات کھیل کے میدانوں میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے اور خصوصی طور پر پاکستان اور بھارت کے کئی یادگار میچ شارجہ کے کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی معیشت سنبھالنے میں بھی ہمیشہ برادرانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا ہے جب بھی ملک کو معاشی بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت پڑی ہے متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ آگے بڑھ کر پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ یو اے ای کے دوران 10 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے اب یہ پاکستانی حکام پر منحصر ہے کہ وہ ان معاہدوں کو روبہ عمل لانے میں کتنا متحرک کردار ادا کرتے ہیں۔
مجھے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ ماضی کی نسبت یہاں کے انفراسٹرکچر میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بڑی شاہراہیں، بلند و بالا عمارتیں اور لوگوں کی خوشحالی عرب امارات کے نئے معاشی روپ کا اظہار کر رہی ہیں۔ امارات کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن زائد ایک ویژنری حکمران ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ملک کو اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بنا رہے ہیں بلکہ یہاں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے متعلق ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض پاکستانیوں کے منفی رویوں کی وجہ سے اب کاروباری ویزوں کے ساتھ ساتھ ورک ویزا پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق عرب امارات نے بتدریج پاکستانی حکام کو اس مسئلے کے متعلق آگاہ کیا لیکن حکومتی اداروں کی غفلت اور لوگوں کے نامناسب رویے کی وجہ سے ایک دیرینہ دوست ملک کو یہ ناخوشگوار قدم اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے نہ صرف مزدوروں کیلئے یو اے ای جانا ناممکن ہو گیا ہے بلکہ عام پاکستانی شہریوں کیلئے بھی وزٹ ویزا حاصل کرنا مشکل ہے۔ اب یہ پاکستانی حکومت کے کار پردازان، دفتر خارجہ اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تربیت کا اہتمام کریں اور گداگری کی صورت میں جو کلنک کا ٹیکہ پاکستانی قوم کے ماتھے پر لگ چکا ہے اس داغ کو دھونے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔