• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی طریقے سے اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی کی سیاست تین نکات پر محیط ہے۔ ایک سوشل میڈیا جس کے ذریعے منفی پروپیگنڈا کیاجاتا ہے۔ دوسرا بے بنیاد الزامات اور تیسرا احتجاج۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ایک بھی کامیاب نہیں ہوا اور نہ مستقبل میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ مثال کے طور پر سائفر کی کہانی اور امریکہ کی سازش کا الزام، پھر سابق آمی چیف جنرل باجوہ پر سازش کا الزام۔لیکن آخرکار یہ سلسلہ محسن نقوی پر جاکر ختم ہوا۔ اگرچہ گزشتہ دنوں سعودی حکومت کو بھی اس میں شامل کیا گیا جو انتہائی شرمناک بات ہے۔ پھر امریکہ کی طرف سے ائیر بیسز مانگنے اور جواب میں Absolutely Not کا نعرہ پھیلایا گیا ،اگرچہ امریکہ نےسابق پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کسی بھی سازش میں ملوث ہونے کی کئی بار واضح الفاظ میں سختی سے تردید کردی تھی، اسی طرح ائیر بیسز مانگنے کی بات کو بھی امریکہ نے جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے ان سے کبھی ایسا کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں تھا تو انکار کی نوبت کیسے پیش آتی۔ ہم مزید تفصیلات میں جانے کے بجائے قصہ مختصر کرتے ہیں کہ جلسے جلوس کھیلتے کھیلتے بات 9مئی تک پہنچ گئی۔9مئی کے واقعات پاکستانی سیاست کا

سیاہ اور شرمناک باب ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان تو کیا دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔9مئی کے واقعات میں دفاعی تنصیبات پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی اور ریڈیو پاکستان پشاور کے علاوہ متعدد ٹول پلازوں کو نذر آتش کرنے کو کون محب وطن پاکستانی بھلا سکتا ہے۔ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ قانونی موشگافیوں میں الجھاؤ کی وجہ سے ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ 24نومبر کے واقعات اسی تاخیر کا نتیجے تھے۔ اگر 9مئی کے سنگین اور سرعام جرائم کی فوری سزائیں دی جاتیں تو پھر دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی بھی نہ سوچتا۔ سوشل میڈیا کو ریاست کے اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کے خلاف چند ٹکوں پر بکنے والے بھگوڑے استعمال کرتے آ رہے ہیں جن کو مخصوص لوگوں کی اشیر باد اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘ کی معاونت حاصل ہے۔ اور وہ بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنے ہی ملک کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش اور جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کچھ بدبخت ملک کے اندر بھی بیٹھ کر فیک اکائونٹس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جن کا جلد قلع قمع کرنے کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔

ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے موجودہ حکومت کو فارم 47کہنے والے شاید بھول گئے ہیں کہ 2018ء میں اس وقت ان کی حکومت کیسے بنی تھی۔ بہرحال یہ تو حکومت جانے اور الزام لگانے والے جانیں۔ ایسے لوگوں نے تو 35پنکچرز کی بات بھی کی تھی جس کو بعد میں شرمندگی کے ساتھ جھوٹ تسلیم کیا تھا۔ بات ملک میں عدم استحکام کی ہو رہی تھی۔ ایسے لوگ نہ صرف ملک میں سیاسی عدم استحکام چاہتے ہیں بلکہ ملک کو معاشی بحران میں بھی مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ایسا کونسا ملک ہے جہاں اپنے ہی ملک کے ’’سیاسی‘‘ لوگ بیرونی مالیاتی اداروں کو خطوط لکھیں کہ ہمارے ملک کو قرضے نہ دیں، نہ کوئی مدد کریں۔ ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کریں کہ بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری کیلئے نہ آئیں۔ لیکن دیگر کوششوں کی طرح یہ کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ پاکستان معاشی میدان میں بتدریج کامیابیوں کی طرف گامزن ہے۔ سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے بھی ہیں اور ہوبھی رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار اور ممالک اعتماد اور اطمینان کے ساتھ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں روز افزوں تیزی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ 24نومبر کے واقعات اس فائنل کال کا نتیجے تھے جس میں ملک بھر سے لوگوں نے شرکت کرنی تھی۔ لیکن کے پی کے علاوہ کسی صوبے بشمول آزاد کشمیر کے، کسی نے احتجاج میں شرکت نہیں کی۔ پنجاب کے عوام میں سے، جہاں صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 120سے زائد اراکین ہیں، کوئی بھی شامل احتجاج نہیں ہوا حتیٰ کہ خود وہ اراکین بھی گھروں سے نہیں نکلے۔

24نومبر کے احتجاج میں کے پی سے بھی چند اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے کچھ لوگوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ جن کی مجموعی تعداد غیر جانبدار رپورٹس کے مطابق پانچ سے آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی جن میں غیر قانونی مقیم افغان بلوائیوں کی بھی ایک تعداد شامل تھی۔ ذرائع کے مطابق ان میں جدید اسلحے، آنسو گیس کے شیلز اور غلیلوں کے ساتھ شر پسند شامل تھے جو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کرنا چاہتے تھے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اندر غیر ملکی صدر اور ان کے وفد کے ارکان پاکستان کے ساتھ متعدد معاہدوں پر دستخط کر رہے تھے اور باہر یہ لوگ دنگا فساد کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ فائنل کال کے احتجاج میں شامل اور ان کو لانے والے خطرے کو بھانپ کر اپنے لوگوں کو چھوڑ کر ایسے فرار ہوئے کہ مانسہرہ میں جا کر دم لیا۔ احتجاج کی ناکامی کے بعد نامعلوم لاشوں کا پروپیگنڈا کیا گیا جن کا نہ خود دعویٰ کرنیوالوں کو علم ہے نہ ان کی تعداد معلوم ہے جتنے لیڈر اتنی تعداد۔ نہ ان کے وارث نہ کوئی پتہ معلوم۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ فائنل کال الٹا گلے پڑ گئی۔ بانی نے پارٹی رہنماؤں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو سارا کریڈٹ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ہی پارٹی کو لیڈ کریں گی۔ فائنل کال کی اطلاع دینے والی علیمہ خان نے ہی ایک بار پھر فائنل کارڈ کی خبر دی ہے اگر یہ سچ ہوا تواس کا نتیجہ بھی ڈھاک کے وہی تین پات، جیسا ہی ہو گا۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔

تازہ ترین