نہ جانے کیوں میرا خیال ہے کہ ہم اپنی کچھ زیادہ ہی مذمت کرنے لگ گئے ہیں۔ ممکن ہے یہ خیال غلط ہو، کیونکہ جس معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کو اُس کی ساس اور گھر والے مل کر مار ڈالیں اور پھر اُس کی تکہ بوٹی کرکے غائب کر دیں، اُس معاشرے کے بارے میں یہ کہنا کہ سب کچھ برا بھی نہیں ہے، خاصی غیرمعقول بات ہے۔ اور پھر یہ تو صرف ایک مثال ہے، یہاں تو آئے دن بے گناہ لوگ مرتے ہیں، کبھی ٹریفک کے حادثات میں تو کبھی محض شناختی کارڈ کی وجہ سے، کبھی کوئی دہشت گرد حملہ آور ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی پولیس کی فائرنگ سے مارا جاتا ہے۔ اور پھر چوبیس گھنٹے تک درجنوں ٹی وی چینل یہی خبریں صبح شام دہراتے رہتے ہیں جس سے ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ لگتا ہے کہ جو شخص بھی گھر سے باہر نکلے گا زندہ سلامت واپس نہیں آئے گا۔ مایوسی ایسی ہے کہ کسی شہری کو ریاست پر اعتبار نہیں رہا، معاشی اعداد و شمار دیکھیں تو سمجھ نہیں آتی کہ آخر وفاقی حکومت کا خرچہ کیسے چل رہا ہے، موسم کا حال بھی سنیں تو لگتا ہے جیسے خاکم بدہن ہمیں اگلا سال دیکھنا نصیب نہیں ہو گا۔ اِن تمام باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہو گی لیکن مجموعی طور پر مجھے لگتا ہے کہ معاشرے میں مایوسی کا تناسب کئی گنا زیادہ ہے اور یہ خطرناک بات ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا... زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا‘‘ یہی حال ہمارا ہے، زخم بھرنے لگتا ہے تو کوئی تازہ زخم لگ جاتا ہے اور نہ لگے تو ہمارے ناخن اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ہم اُن سے نئے زخم لگا لیتے ہیں۔
چلیے مان لیا کہ ہماری قوم کی بعض قبیح عادات ایسی ہیں کہ اُن کی بنا پر اُسے موردِ الزام ٹھہرانا ٹھیک ہوگا مگر یہ کیا کہ ہر بات میں ہی ہم اپنی ذلت کا سامان پیدا کر لیتے ہیں! اب ایسا بھی نہیں کہ جہان بھر کی سماجی برائیاں صرف ہم میں ہیں اور باقی دنیا پاکباز ہے۔ ہمارا یہ رویہ معاشرے میں منفی رجحان کو بڑھاوا دے رہا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے ساتھ ساتھ لوگوں کا ایک دوسرے سے بھی اعتبار اُٹھ رہا ہے۔ اِس کی ایک وجہ تو سنسنی خیز میڈیا ہے مگر یہ بات مکمل طور پر درست نہیں کیونکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی میڈیا کہیں زیادہ سنسنی خیز ہے، وہاں بھی مایوسی ہے مگر اُس کی شدت اِس قدر نہیں جتنی ہمارے ہاں ہے۔ دوسری وجہ سیاسی قیادت ہے، یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں مگر بہرحال اُن کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں اِس کی کوئی حد نہیں، یہاں اب سیاسی بیانیے کی کامیابی اِس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ کسی سیاست دان نے عوام کو اِس نظام سے کتنا بیزار اور مایوس کیا، اِس سے سیاست دان کو وقتی فائدہ ضرور حاصل ہو جاتا ہے مگر یہ حکمت عملی سماج میں بد دلی اور نااُمیدی کا باعث بن رہی ہے۔
اِس سے پہلے کہ میں آگے کچھ اور لکھوں ایک بات کی دوبارہ وضاحت کردوں کہ معاشرے میں مایوسی بلاوجہ نہیں ہے، غریب اور پسماندہ طبقات کا جینا واقعی محال ہو چکا ہے، تاہم میرا مقدمہ صرف اتنا ہے کہ مایوسی غیر متناسب حد تک بڑھی ہوئی ہے، یعنی اگر ہم اپنے نظام کی کارکردگی کو ایک سے دس کے پیمانے پر تین نمبر دیں تو مایوسی اِس قدر زیادہ ہے کہ لوگ اسے تسلیم نہیں کریں گے اور اِس نظام کو صفر بلکہ منفی تین نمبر دیں گے۔ جس طرح معاشرے میں جھوٹ تیزی سے سفر کرتا ہے اسی طرح مایوسی کا بھی Snowball Effect ہوتا ہے، لوگ بلا تصدیق کیے باتیں پھیلاتے ہیں جو مزید ناامیدی کا سبب بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ اگلے روز دوستوں کی محفل میں یہ سوال زیر بحث آیا کہ درست اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کیا ہوتی ہے اور رپورٹر اور تجزیہ نگار میں کیا فرق ہوتا ہے۔ برادرم عمران مختار، جو ایک معتبر صحافی ہیں اور غیر ملکی میڈیا سے وابستہ ہیں، انہوں نے بہت عمدگی سے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اگر کسی واقعے میں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جھوٹ پھیلانے کا الزام ہو اور ساتھ ہی ریاست پر تشدد کا الزام بھی ہو تو ایک اچھا رپورٹر دونوں باتوں کی چھان پھٹک کرے گا اور اگر وہ تجزیہ نگار ہوگا تو دونوں زاویوں سے بے لاگ تجزیہ کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اپنی پسند کے حقائق منتخب کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے واقعے کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوتی۔ اِس مثال کو یہاں جَڑنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ ہم لکھاری بھی موضوع کا انتخاب کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، لیکن یہ کام کرتے وقت ہم اکثر ایسا موضوع منتخب کرتے ہیں جس میں کوئی منفی پہلو ہو، اور یہ کسی بدنیتی کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ نیت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ معاشرے میں فلاں برائی پھیل رہی ہے لہٰذا اِس کا تدارک کیا جائے، مگر اِس طریقے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم غیرشعوری طور پر معاشرے میں مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ لکھاری اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم سے بیگانہ ہو جائے یا چھ ماہ کیلئے صرف ”مثبت رپورٹنگ“ کرکے نتائج کا انتظار کرے اور دیکھے کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ لیکن ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کی پیش گوئیاں بند کردیں۔ خطرے سے آگاہ لازماً کریں مگر اِس طرح کہ لوگوں کو حقائق سے آگاہی ہو نہ کہ وہ یہ سوچ کر گھر سے باہر نکلیں کہ نہ جانے شام کو بچوں کو منہ دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں۔
یہاں تک لکھ کر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ کالم لکھ کر میں نے اپنے لیے مشکل ہی پیدا کی ہے کیونکہ اب موضوع کا انتخاب کرتے ہوئے مجھے دھیان رکھنا ہوگا کہ کہیں میں بھی تو خواہ مخواہ سماج میں بد دلی پھیلانے کا باعث نہیں بن رہا! لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو کچھ تسلی ہوئی ہے کہ اِس میدان میں بڑے بڑے جغادری موجود ہیں جو روزانہ لوگوں کو اپنا یہ تجزیہ سنا کر سوتے ہیں کہ (خدانخواستہ) بہت جلد اِس ملک میں خون کی ندیاں بہیں گی۔ مایوس کُن باتوں کو ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ تقریبات اور سیمینارز میں بھی بیان کرتے ہیں اور اُس کے بعد اڑھائی کروڑ کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے فارم ہاؤس روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک فقرے میں لکھنا ہو تو یوں لکھیں گے کہ اِس ملک میں جو جتنا خوشحال ہے وہ اتنی ہی مایوسی پھیلا رہا ہے۔ بغیر کسی شرم کے!