• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حساب کتاب کے معاملے میں اُن سا کھرا نہیں دیکھا
حساب کتاب کے معاملے میں اُن سا کھرا نہیں دیکھا

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے والد عبدالغفار مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’دنیا میں صرف والدین ہی کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے، جو اپنی اولاد کو خود سے آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ صرف یہی وہ واحد رشتہ ہے، جس میں بے لوث شفقت و محبّت اور خلوص و ایثار ہوتا ہے۔ والدین اپنی راتوں کی نیندیں قربان کرکے اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ اُن کی خواہشات پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دنیا کا تمام سُکھ چین گنوا دیتے ہیں اور پھرانھیں جوانی کی دہلیز پر پہنچا کر خود ضعیفی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

میرے والد قیامِ پاکستان سے قبل بھارت کے شہر، دہلی میں پیدا ہوئے۔ ثانوی تعلیم کے بعد معروف علمی درس گاہ علی گڑھ یونی ورسٹی میں داخل ہوئے۔ ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ برِصغیر کی تقسیم کا عمل شروع ہوگیا، لہٰذا انٹرمیڈیٹ کے فوری بعد ہی اپنے والد، یعنی ہمارے دادا کےحکم پر کراچی ہجرت کی اور ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی آنرز کے بعد سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ 

ویسے تو ہر باپ اپنے بچّے کا آئیڈیل ہوتا ہے، مگر ہمارے پاپا تو ہمارے لیے ایک گراں قدر اثاثہ تھے۔ اُن میں بہت سی ایسی خصوصیات تھیں، جو اُنھیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں، مثلاً اُن کا غضب کا حافظہ اور اردو اور انگریزی زبانوں میں بھرپور مہارت وغیرہ۔ بدقسمتی سے ہم بہن بھائیوں میں اُن جیسی قابلیت و صلاحیت تو نہیں، تاہم، اُن سے جتنا بھی سیکھنے کا موقع ملا، آج ہمارے کام آرہا ہے۔ ہم نو بہن بھائی تھے اور وہ اکیلے کمانے والے، مگر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیشہ ہمیں آسودہ حال رکھا، ہم کبھی بھوکے نہیں سوئے۔ 

جب کہ اتنے بڑے کنبے کی کفالت یقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ پاپا مختلف جسمانی صحت کے مختلف کھیلوں کے بھی بڑے شوقین تھے، خصوصاً ہاکی بہت شوق سے کھیلا کرتے۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران کچھ عرصہ یونی ورسٹی کی طرف سے ہاکی کھیلتے رہے، جب کہ اُنھیں مطالعے کا تو ازحد شوق تھا۔ اُن کے ہاتھ میں ہمیشہ اخبار، رسالہ یا کوئی کتاب ضرور ہوا کرتی۔ حساب کتاب کے معاملے میں ایسے کھرے تھے کہ اپنی طرف نکلنے والے پچیس پیسے بھی ادا کرتے، اور دوسرے کی طرف سے نکلنے والے پچیس پیسے بھی لیا کرتے۔

اگرچہ وہ بہت زیادہ مذہبی رجحانات کےحامل نہیں تھے، مگر ان کے دل میں حُبّ رسول ؐ کوٹ کوٹ کر بَھرا تھا۔ ایک بار جذب کی کیفیت سے سرشار یہ خبر سُنا کر ہمیں حیرت زدہ کردیا کہ اُنھیں خواب میں حضوراکرم ﷺ کی دو بار زیارت نصیب ہوچکی ہے۔ رمضان المبارک میں افطار کا خاص اہتمام کرتے۔ چائے کے بےحد شوقین تھے۔ جب ہم سن ِشعور کو پہنچے، تو اکثر معاملات میں ہم سے مشاورت ضرور کرتے اور ہمارے مشوروں کی روشنی میں ایک بار جو فیصلہ کرلیتے، پھر اس پر سختی سے کاربند رہتے۔ 

انہوں نے پوری زندگی کبھی اسپتال کا رُخ نہیں کیا، مگر وقتِ اجل آیا، تو اسپتال ہی میں دَم نکلا۔ وہ رمضان المبارک کا دوسرا روز تھا، عصر کے وقت طبیعت ناساز ہوئی، توہم انھیں اسپتال لے کرگئے، اور عین مغرب کی اذان اور افطار کے وقت وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ پاک، میرے پاپا کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ اُن کے اور درجات بلند فرمائے اور ہم تمام بہن بھائیوں کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے، آمین، ثم آمین۔ (خاور غفار)