شام کے مفرور صدر بشار الاسد حکومت کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش رہنے والے سماجی کارکن مازن الحمادہ کی تشدد زدہ لاش مل گئی، وہ بدنام زمانہ جیل صیدیانا میں قید تھے، لاش اسپتال کے مردہ خانے سے ملی ہے۔
مازن الحمادہ کی لاش حراستہ اسپتال کے مردہ خانے سے ملی، جہاں شامی حکومت قیدیوں کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفنانے سے پہلے رکھتی تھی۔ ان کی لاش پر تشدد اور مار پیٹ کے واضح نشانات موجود تھے، جس نے عوام اور کارکنان کو گہرے صدمے سے دوچار کر دیا۔
شامی کارکن مازن الحمادہ، دیر الزور سے تعلق رکھتے تھے، وہ 2011 میں عرب بہار کے دوران حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیے گئے تھے، جس کے کچھ عرصے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا، تاہم 2012 میں وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ دمشق کے محاصرے کے دوران بچوں کیلئے دودھ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران دوبارہ گرفتار کر لیے گئے تھے۔
عرب میڈیا کے مطابق مازن الحمادہ کو گرفتاری کے بعد متعدد جیلوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد 2014 میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں انہوں نے نیدرلینڈز میں پناہ لینے کے بعد بشارالاسد کی حکومت کے مظالم کو اجاگر کرنا شروع کردیا تھا، اس دوران انہوں نے عالمی کانفرنسز میں بھی شرکت کی اور جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر گواہیاں دینے کے ساتھ ساتھ شامی حکومت کے خلاف قانونی کارروائیوں میں مدد فراہم کی۔
2020 میں انہوں نے شامی حکومت کے معافی کے وعدے پر وطن واپس آنے کی کوشش کی، لیکن انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے اور گزشتہ روز ان کی موت کی تصدیق ہوئی۔