وُہ دِن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کَرتے تھے۔ احتجاج، دھرنوں کی دھمکیاں، جلائو گھیرائو ، وفاقی دارالحکومت پر یلغار اور آخر میں سول نافرمانی کی دھمکی، سب کچھ نا کام بلکہ ختم ہو گیا ۔ بانی پی ٹی آئی کو کچھ دن پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے کیا حالات بننے ہیں اس لیے تو از خود مذاکراتی کمیٹی بنا دی تھی لیکن اس سے قبل وہ سول نافرمانی کی دھمکی کی غلطی کر چکے تھے۔ آنے والے حالات کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے ہی تو کہنا شروع کیا گیا کہ’’ ہم تو انسان ہوں یا فرشتے سب سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جو بانی کی ہدایت پر کہا کرتے تھے کہ مذاکرات ہوں گے تو صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے۔ موجودہ حکومت سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ فارم 47والی ناجائز حکومت ہے ہم اس حکومت کو مانتے ہی نہیں تو اگر ان سے مذاکرات کریں بھی تو اس کا مطلب اس حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بے اختیار حکومت ہے اس لیے اس کے ساتھ مذاکرات کا فائدہ کیا ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات صرف ان کے ساتھ کریں گے جو مکمل طور پر بااختیار ہیں یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالانکہ وہاں سے متعدد بار وضاحت کے ساتھ کہا گیا کہ وہ کسی سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ اس کی ضرورت ہے۔ یہ سیاستدانوں کے آپس کے معاملات ہیں لیکن شائد کچھ لوگ بانی کو مس گائیڈ کرتے رہے کہ بات چیت چل رہی ہے اور جلد باضابطہ مذاکرات ہونگے۔ بانی پی ٹی آئی بجائے آئی ایس پی آر کےبیانات کو سمجھنے کے ان لوگوں کا یقین کرتے رہے جو ان کو پس پردہ مذاکرات کی من گھڑت خبریں دیتے رہے اور یہی وجہ تھی کہ بانی بار بار حکومت سے مذاکرات کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے بیانات جاری کرتے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ لوگوں نے ان کو یہ باور کرایا ہے کہ 20جنوری کو صدر ٹرمپ حلف اٹھائیں گے تو بانی کی رہائی کا پروانہ جاری کرا دیں گے حالانکہ ایں خیال خام است۔ بہرحال وہ یہ بھی دیکھ لیں گے۔
9 ؍ مئی کے واقعات کو دھول کہنے والے شائد بھول گئے ہیں کہ 9؍ مئی کو کیا ہوا تھا۔ وہ واقعات دھول نہیں بڑے بڑے پتھر ہیں جو ذرائع کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ کی طرح ان واقعات کے منصوبہ سازوں ، سہولت کاروں اور ملوث افراد پر گرنے والے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز سے بعض کی ایسی دوڑیں لگیں کہ وہ شرائط کو بھی بھول گئے، بانی کو بھی اور اس حکومت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے از خود مذاکرات کے لئے رابطے اور واسطے ڈھونڈنے لگے۔ ذرائع نے واضح کیا ہے کہ فیض حمید کے معاملے میں 9؍ مئی اور دیگر معاملات پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا فیض حمید سے جڑے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ شائد ان کو پتہ نہیں ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے علاوہ اور بہت سے لوگوں کے بارے میں کافی ٹھوس معلومات، ثبوت اور شواہد مل چکے ہیں جو جلد سامنے آ جائیں گے۔ فوجی اداروں کا طریقہ کار ہے کہ پہلے وہ ناقابل تردید ثبوت حاصل کرتے ہیں تب کارروائی کرتے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اتنا کہنا کافی ہو گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس تناظر میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر ملوث افراد کا کیس ملٹری کورٹ میں چلایا جائے گا یا سول اعلیٰ عدلیہ میں تو اس بارے میں ذرائع نے بتایا کہ اس بارے میں جو بھی فیصلہ ہو گا وہ قانون کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا اس لیے قیاس آرائیاں کرنے اور افواہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ ایک بات البتہ پتھر پر لکیر ہے کہ کچھ بھی ہو 9؍ مئی کے واقعات کے منصوبہ ساز، سہولت کار اور ملوث عناصر کسی بھی صورت سزائوں سے بچ نہیں سکیں گے۔ جہاں تک حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تعلق ہے تو مذاکرات کرنا اچھی بات ہے لیکن یہ مذاکرات مختلف نوعیت کے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی بانی کی رہائی، مینڈیٹ کی حوا لگی اور ان کے تمام لوگوں کےمقدمات ختم کرنے جیسی شرائط سے دستبردار ہوتی ہے تو اس کے لئے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے وہ ان شرائط سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی طریقہ کار پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپناکردار ادا کرے اور اگر وہ ان ہی شرائط کو ذہن میں رکھتے ہوئے مذاکرات کے لئے بیٹھتی ہے تو ان میں ایک بھی شرط پوری کرنا حکومت کے لئے ناممکن ہے۔ اس صورت حال میں سمجھ نہیں آتی کہ مذاکرات کا کیا فائدہ پی ٹی آئی کومل سکتا ہے۔ اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو وہ بانی کے سامنے یہ رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے حکم کے مطابق مذاکرات شروع کیے حالانکہ معلوم تھا کہ ان مذاکرات کا حاصل کچھ نہیں ہو گا لیکن آپ کی ہدایت پر بہرحال عمل کیا۔ دوسری بات جو مبہم سی ہے کہ وہ 20جنوری تک معاملات کو طول دینا چاہتے ہیں کہ بانی اور دیگر کے خلاف کارروائی کی رفتار کو کم کیا جائے۔ ان دو باتوں کے علاوہ تو یہ بے مقصد مذاکرات ہی نظر آتے ہیں لیکن ان سب باتوں سے پہلے یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ مذاکرات کاایجنڈا کیا ہو گا۔ ایجنڈا سامنے آنے سے پتہ چل جائے گا کہ مذاکرات شروع ہوتے بھی ہیں یا پی ٹی آئی کے خواہشات کےپھول بن کھلے مرجھا جائیں گے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کے معاملات ،پرویز مشرف کےساتھ طے ہو گئے تھے اسی طرح بانی پی ٹی آئی کے بھی طے ہو جائیں گے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان دونوں نے 9مئی جیسے واقعات نہیں کیے تھے نہ ہی ان کے خلاف کرپشن کے ثبوتوں کےساتھ کیسز تھے۔ اس لیے ان کے معاملات کو کسی بھی طرح نظیر نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی تو اور بہت نام سامنے آنے ہیں۔ بس آگے آگےدیکھئے کیا ہو تا ہے۔ تھوڑا انتظار کریں۔