• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہلِ سیاست نے خلق خدا کو راستہ دکھانا ہوتا ہے اس لئے ان سے غیر معمولی ذہانت اوربے مثال دانش و معاملہ فہمی کی توقع کی جاتی ہے ۔ہم عامیوں کیلئے دو آنکھیں ہی نعمت ہیں، سیاست دان کی تین آنکھیں ہوں تبھی وہ مستقبل کے تیور پڑھ کر فیصلے کر سکتا ہے۔ دو آنکھیں تو صرف ارد گرد کے حالات دیکھ سکتی ہیں تیسری آنکھ جو دماغ میں ہوتی ہے وہ دور تک دیکھ سکنے کے قابل ہونی چاہئے۔ مقبولیت خدا کی دین ہے،قبولیت طاقت کا پر تو ہے مگر معقولیت وہ رویہ ہے جو حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنانا چاہئے تاکہ ریاست کاسفر رواں دواں رہے،کہیں رائیگاں نہ چلاجائے۔

یہ عامی گزشتہ دوسال سے مقبولیت اور قبولیت میں دُوریوں کی طرف متوجہ کرتا رہا بدقسمتی سے دونوں فریقوں کو یہ باتیں پسند نہ آتی تھیں۔ پسند ناپسندکا حق تو ہر کسی کو حاصل ہے مگر راستہ صرف مصالحت اور مذاکرات ہی تھا، وہ بھی کسی نے نہ مانا۔ مقبولیت والے گالی باز طعنے دیتے رہے کہ یہ تو قبولیت والوں کی لائین ہے اور قبولیت والے ناپسند کرتے رہے کہ ہمارے دل کی بات سرِعام کیوں لے آئے؟ خیر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا۔ مقبولیت والوں نے احتجاج، جھگڑے، گالیاں اور خون بہانے سمیت سب کچھ کر کے دیکھ لیا اور اب اسی جگہ پہنچے ہیں جہاں دو سال پہلے انہیں پہنچنے کا مشورہ دیا گیا تھا، قبولیت والے نے بھی سارے حربے آزما لئے مقبولیت کو زیر دام تو لے آئے مگر مہربرلب نہ کر سکے سو اتنے سال ہم دائروں میں گھومتے رہے حالات کا سرانہ پکڑ سکے اور اب بھی نامعلوم منزل کی طرف ہی چلےجا رہے ہیں۔

اصل میں مقبولیت اور قبولیت دونوں اطراف میں معقولیت کا فقدان ہے۔ اب بظاہر مذاکرات اور مصالحت کی طرف رجوع کرنے کا امکان بڑھا ہے مگر یہ اس وقت ہوا ہے جب مقبولیت والے اپنی بارگیننگ پوزیشن کمزور کر چکےہیں ،عدلیہ سے توقعات ناکام ثابت ہوئیں، احتجاج اور لانگ مارچ مایوس کن نتائج لائے، جارحانہ بیانات، الزام و دشنام تراشیاں، دوسرے کا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔ دوسری طرف قبولیت والے مقبولیت کے قلعے کو کمزور تو کرگئے مگر اسے مکمل طور پر زمیں بوس اور مسمار نہ کر سکے۔

بظاہر مذاکرات آئیڈیل اور واحد حل ہیں، قومی حکومت آگے چلنے کا بہترین فارمولا ہے مگر عملیت پسندی سے دیکھا جائے تو قبولیت والے فی الحال ان دونوں باتوں کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کریں گے۔ ایک طرف پی ٹی آئی حکومت ،مقتدرہ اور موجودہ سیٹ اپ سے8فروری کے انتخابات کو تسلیم کراکے ریلیف لینا چاہتی ہے مگر قبولیت والے فی الحال ریلیف دینے کو حکمت عملی نہیں بنائیں گے۔وہ چاہیں گے کہ پی ٹی آئی کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دیں اور اسے اتنا کمزور کر دیں کہ وہ ان کیلئے کبھی خطرہ نہ رہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اوپر نیچے کے غلط فیصلوں کے بعد اس صورتحال سے نکلنا چاہتی ہے قبولیت والے فی الحال شاید انہیں ENGAGEتو کرلیں گے مگر انہیں ریلیف اگلے الیکشن سے کچھ ماہ پہلے ہی مل سکے گا۔ اندازہ یہ ہے کہ قبولیت والے معیشت کو مستحکم کرکے پہلے عمران مخالف بیانیے کو مضبوط کرکے اپنا ایک نیا سیاسی گروپ بنائیں گے اور پھر الیکشن میں اتریں گے ،پہلے بلدیاتی انتخابات ہونگے اور پھر قومی انتخابات، مگر فی الحال مجھے فوری طور پر کسی گرینڈ مفاہمت کے امکانات نظر نہیں آ رہے، وجہ دونوں طرف معقولیت کا نہ ہونا ہے ۔تحریک انصاف مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہے اور اس کا خیال ہے کہ ان کا گھوڑا ہر رکاوٹ پھلانگ لے گا دوسری طرف مقتدرہ والے سمجھتے ہیں کہ ہم تو گھوڑوں کو روکنے اور حتیٰ کہ سدھانے کا تجربہ رکھتے ہیں ہم اس گھوڑے کو پہلے سدھائیں گے پھر میدان میں اترنے دیں گے۔

مذاکرات کی حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی اور سپیکر میں نشست ہو رہی ہے اور دوسری طرف وزیر داخلہ مرے ہوئے ہاتھی پرویز خٹک سے جا کر مل رہے ہیں گویا تحریک انصاف کے مزاحمتی قلعے پختونخوا پر حملے کی حکمت عملی طے ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اگر تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اورعلی امین گنڈا پور اس میں شریک ہوئے تو پھر نتائج جو بھی نکلیں گنڈا پور حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا ،گو میری رائے میں یہ ایک غلط اور احمقانہ قدم ہو گا مگر مقتدرہ اور

وفاقی حکومت یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ مذاکرات کی کامیابی اور ملک کو آگے بڑھانے کیلئے معقولیت کی ضرورت ہے معقولیت کا مطلب جیو اور جینے دو ہے۔ ایک دوسرے کیلئے لچک پیدا کریں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ پی ٹی آئی والے ایک طرف مذاکرات چاہتے ہیں دوسری طرف گالی باز اور گالی ساز مقتدرہ، سیاست دانوں اور صحافیوں پر الزامات کے طومار باندھ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت نہ ان سے قطع تعلقی کا اعلان کرتی ہے نہ انکی حوصلہ شکنی کے لئے کوئی اقدام اٹھاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نامعلوم اجنبی جب گالیاں دیتے اور الزام تراشی کرتے ہیں تو اس کے جواب میں گالی ان اجنبیوں کو نہیں بلکہ عمران خان کو پڑتی ہے ۔بدقسمتی سے خان کے حامیوں کا وطیرہ ہی اُسے جیل میں رکھنے کا ذمہ دار بن چکا ہے یہ چند مقبولیت کے بیانیے کو اغوا کرکے اس کے ذریعے ڈالر کماتے ہیں اور جواباً مشکلات جیل میں پڑے خان کو جھیلنا پڑتی ہیں، انتہا پسندانہ رویے اور گروہ اپنی ہی قیادت کو دبائو میں لے آتے ہیں اور اسے آزادانہ فیصلے نہیں کرنے دیتے جس سے پارٹی مزید شدت پسندی کی طرف بڑھتی ہے اور بالآخر انہی جیسے لوگ پارٹیوں پر تباہی لاتے ہیں تحریک انصاف فی الحال اسی اندرونی بحران سے گزر رہی ہے، خان کو یہ جارحیت پسندی اچھی لگتی ہے وہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے مگر یہ خود اس کیلئے زہرقاتل ہے آپ کے ہاتھ میں زہرمیں بجھا خنجر اور زبان پر دشنام کی کالک ہو تو آپ سے مذاکرات کون کرے گا؟ کیا کوئی سوچے گا کہ ان پالیسیوں سے خان کے مخالف کم ہوئے ہیں یا بڑھے ہیں؟کیا اس جارحانہ حکمت عملی سے خان رہا ہو گا یا اس پر مزید آفتیں ٹوٹیںگی مقتدرہ جتنا وقت زیادہ لےگی اس کا نقصان خان کی جماعت کو ہوگا اور فائدہ مقتدرہ کو ہو گا۔ معقولیت کی زبان ہوتی تو وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی کہ لڑائی، جھگڑے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے طور طریقے چھوڑو اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کی پالیسی اپنائو۔

قبولیت اور مقبولیت دونوں کو مشورہ ہے کہ اب معقولیت کی رسی کو تھام لیں آپ دونوں ایک حقیقت ہیں مگر دو حقیقتیں لڑ پڑیں گی تو وحشت کا راج ہو گا، ناامیدی کی حکمرانی ہو گی اور مایوسی پھیلے گی۔ آج یہی صورتحال ہے۔ معقولیت سے ہی قومیں بنتی اور اسی سے چلتی ہیں معقولیت یہی ہے کہ ایک دوسرے کو تاراج کرنے کی سوچ بدلیں ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور اکٹھا چلنے کو ترجیح دیں۔

تازہ ترین