یہ دسمبر کی انوکھی چاندنی
برف کا پیکر، رُوپہلی چاندنی
آسماں کو الوداع کہتی ہوئی
کھڑکیوں پر پاؤں رکھتی چاندنی
سبز پتّے، خشک شاخیں ڈھک گئیں
خُوب صُورت پیرہن سی چاندنی
شوخ چنچل سی سہیلی کی طرح
سُرخ پُھولوں سے لپٹتی چاندنی
برف کی چادر بچھی چاروں طرف
سُرمئی سڑکوں پہ پھیلی چاندنی
صبح کی پہلی کرن گم ہوگئی
چھا گئی ہے ہر طرف ہی چاندنی
اِک نئے موسم کا سندیسہ لیے
زخمِ دل پہ ہاتھ رکھتی چاندنی
روشنی در روشنی کا سلسلہ
مُرغ زاروں پر بکھرتی چاندنی
آپ نے دیکھی نہیں ہوگی کبھی
سرد موسم میں سلگتی چاندنی
*********
کبھی دل میں بساتا ہے، کبھی وہ دُور کرتا ہے
وہ اس فطرت سے اپنی مجھ کو یوں رنجور کرتا ہے
یہ رنگ و روپ تیرا، اصل میں عکسِ محبّت ہے
جو دل کے آئینے کو حُسن سے پُرنور کرتا ہے
مَیں چاہوں بھی کہ نہ دیکھوں کبھی اس کو محبّت سے
مگر حُسن کی کشش سے وہ مُجھے مجبور کرتا ہے
مَیں پیتا بھی نہیں، پھر بھی نشے میں چُور رہتا ہوں
محبّت کے نشے سے وہ مُجھے مخمور کرتا ہے
وفا کی ان سے تم امید کیوں رکھتے ہو اے جوہرؔ
ستم گر تو جفا سے دل کو چکنا چُور کرتا ہے
(سید سخاوت علی ہاشمی جوہرؔ)