16 ؍دسمبر 1971ء ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اپنے ہی لوگوں اور اپنی ہی فوج کیخلاف کچھ لوگ کرایہ کے سپاہی بن گئے جن کو مکتی باہنی کا نام دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے بھارت کیساتھ ملکر سازش تیار کی جس کی ابتدا لسانی نفرت پھیلانے سے کی گئی۔ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینا اس نفرت کی بنیاد بنائی گئی۔ قائداعظم کے اردو اور بنگالی کے متعلق خیالات دو عوامل سے متاثر تھے۔ اول یہ کہ اردو بطور رابطہ زبان ایشیا کے شمالی حصوں بشمول بہار، یوپی وغیرہ اور بالخصوص مغربی پاکستان کے علاقوں میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی۔ دوم، اردو کو ریاست کے مختلف صوبوں کے درمیان بین الصوبائی رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دینا تھا۔ بااثر سیاسی اور بیوروکریٹک عہدوں سے بنگالیوں کو محروم رکھنا بھی بہت بڑا جھوٹ اور مذکورہ سازش کا حصہ بنایا گیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی اور اسکندر مرزا وغیرہ کا تعلق کیا بنگال سے نہیں تھا۔ 1970ء تک 300سے زیادہ افسران جن میں ایم ایم عالم اور سرفراز رفیقی شامل ہیں، فوج میں شامل کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ مذکورہ سازش میں معاشی معاملہ بھی شامل کیا گیا۔ اسلام آباد میں ایک اجلاس میں شرکت کے بعد شیخ مجیب نے ڈھاکہ پہنچ کر پلٹن میدان میں جلسہ سے خطاب میں کہا کہ مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آرہی تھی۔پاک فوج کیخلاف گوریلا کارروائیاں کرنے کیلئے’’را‘‘ نے ایک لاکھ کے قریب نوجوانوں کو چار ہفتوں کی ٹریننگ دی، ان کو اسلحہ اور ضروری سازوسامان مہیا کیا اور مالی لالچ دیکر پاک فوج کیخلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف شیخ مجیب اپنی تقاریر کےذریعے کھل کر لوگوں کو اکساتا رہا ۔یہ لوگ بڑی تعداد میں خواتین کا اجتماعی ریپ بھی کرتے تھے اور ان سب وارداتوں کا الزام پاک فوج کے افسران اور جوانوں پر لگایا کرتے تھے ۔ مکتی باہنی کے یہ باغی دہشت گرد چن چن کر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کرتے اور ان کے گھر بار اور کاروبار کو لوٹتے رہے۔ دیہات میں رہنے والے بنگالیوں کو مجبور کر کے فوج کو یہ کہہ کر بلایا کرتے تھے کہ ہم پر مکتی باہنی حملہ کرنے والی ہے ہماری مدد کریں اور جب فوج کے افسر اور جوان وہاں انکی مدد کو پہنچ جاتے تو پہلے سے چھپے ہوئے مکتی باہنی والے ان کو گھیر لیتے تھے۔ اس دوران ایک غدار میجر ضیاء الرحمان مکتی باہنی کے ان تمام بدکرداررویوں میں انکا ساتھ دیتا رہا۔ اس نے چٹاگانگ میں اپنے کمانڈنگ آفیسر جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا کرنل جنجوعہ کو بھی شہید کیا اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر کے ریڈیو بنگلہ دیش کے نام سے نشریات شروع کیں۔ یہ وہیں ضیاء الرحمان تھا جو بعد میں بنگلہ دیش کا صدر بھی بنا تھا۔ ’’را‘‘ کے ایک افسر آر کے یادیو اور بی رامن کی کتاب دی کائوبوائز آف آر اینڈ اے بلیومیں بھی بطور اعتراف درج ہے۔ ان دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ، پارلیمنٹ’’را‘‘ اور بھارتی مسلح افواج نے مشرقی پاکستان علیحدہ کرنے کا مشترکہ منصوبہ بنایا۔ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب Dead Reckoning Memories of the Bangladesh war 1971 ء میں لکھا ہے کہ پاک فوج پر تین ملین بنگالیوں کے قتل کا الزام بہت بڑا جھوٹ ہے ۔ بے شمار شواہد، عینی شاہدین اور ثبوتوں سے یہ عیاں ہے کہ پاک فوج نے نہ صرف ملکی دفاع اور مشرقی پاکستان میں رہنے والے مغربی پاکستانیوں اور متحدہ پاکستان کے حامی بنگالیوں کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کیں بلکہ خواتین کی عزتوں کو مکتی باہنی کے ہاتھوں لٹنے سے بچایا۔ راستوں کی طویل مسافت، درمیان میں بھارتی رکاوٹوں اور دیگرعوامل کی بنا پر پاک فوج کو وہ کمک اور رسد نہیں پہنچ سکی جو ان کو درکار تھی۔ پھر بھی پاک فوج نے بڑی دلیری کے ساتھ غداران وطن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مودی کے زیرسایہ اور بی جے پی کی ہر قسم معاونت و اشیرباد سے آج بھی بھارت بلوچستان، سابق فاٹا اور گلگت بلتستان کے عوام کیخلاف پراکسی اور جھوٹی میڈیا مہم کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔16 دسمبر 2014ء پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک ترین دن ہے جو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس دن ٹی ٹی پی کے درندوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ہمارے 132طالب علم بچوں اور اساتذہ سمیت عملہ کے 17افراد کو شہید کیا تھا۔ آج اس المناک واقعہ کو دس سال مکمل ہو گئے لیکن لواحقین کے ساتھ پوری قوم کے سینوں پر لگا یہ زخم آج بھی اسی طرح تازہ ہے۔ پوری پاکستانی قوم اور مسلح افواج و متعلقہ ادارے ان شہیدپھولوں اور عملہ کے شہدا کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ یہ پاک فوج کا وعدہ اور عزم ہے کہ ٹی ٹی پی نامی خوارجی درندوں کے گروہ کو ہر قیمت پر عبرتناک انجام سے دوچار اور ان کا نام و نشان مٹانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں خوارج کے خلاف برسرپیکار پاک فوج اور قانون نافذ کرنیوالے تمام ادارے مستعد اور چوکنا ہیں۔ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں لیکن ہر واقعہ میں خوارج کو بھی واصل جہنم کرتے ہیں۔ کے پی پولیس بھی اس مقصد میں پیچھے نہیں ، اس نے بھی عوام کی حفاظت کے لئے کسی جانی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔ بلا شبہ ٹی ٹی پی خوارجی فتنہ، انسانیت اور دشمنان دین ہیں۔ 2020ء میں بھارتی مکار اور بزدل خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو اکٹھا کیا جو افغانستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں مقیم ہیں اور ان کو پاکستان میں دہشت گرد وارداتوں کا ٹاسک دیا۔ ’’را‘‘ کی ہدایات پر یہ اپنے لئے جہنم خریدتے ہوئے بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ ان کا واسطہ پاک فوج سے پڑا ہے جن کا عزم ملک و قوم کا دفاع اور جنت میں جانے کی بیتابی ہے ان سے پھر کون جیت سکتا ہے۔