پاکستان میں انڈسٹری کو جہاں سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کے مسئلے کا سامنا ہے وہیں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور بلا تعطل فراہمی کا مسئلہ بھی ایک مستقل بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حکومت نے آئندہ ماہ سے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے انڈسٹری کو نوٹسز کا اجرا بھی شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 1280 کیپٹو پاور پلانٹس متاثر ہوں گے۔ ان میں سے 800سوئی سدرن گیس کمپنی اور 480 سوئی ناردرن گیس کمپنی سے گیس حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کیپٹو پاور پلانٹس بند ہونے سے نہ صرف برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل متاثر ہو گی بلکہ لاکھوں مزدور بھی بیروزگار ہونیکا اندیشہ ہے۔
اس حوالے سے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس پر وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ملک میں ایل این جی کا وافر اسٹاک موجود ہے اور کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی نگران دور حکومت میں کئےآئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے بند کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت ایل این جی پاور پلانٹس بند کرنے کے نقصانات سے آگاہ ہے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں لیکن تاحال یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے والی نگران حکومت یا بیوروکریسی نے ان مسائل کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جن کی وجہ سے اب انڈسٹری کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے ۔ اس وقت حکومت کو جہاں آئی ایم ایف کے دبائو کا سامنا ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کی جائے گی تو اس سے گیس کمپنیوں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رکھنے سے نیشنل گرڈ کو چلانے والے پاور سیکٹر کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اسے استعمال ہونے والے یونٹس کی کم تعداد کے باعث کیپیسٹی چارجز کی مد میں زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ اس صورتحال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کے انرجی سیکٹر میں طویل المدت اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور کوئی بھی پالیسی بناتے وقت بجلی، پیٹرولیم اور گیس کے سیکٹر کو الگ الگ ڈیل کرنے کی بجائے طویل المدت بنیادوں پر ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انڈسٹری اور گھریلو صارفین کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو زیادہ بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس خودکار ٹیکسٹائل مشینری کو بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے اور وولٹیج میں اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت بجلی اور بھاپ کی پیداوار کی خوبی کے باعث بھی کیپٹو پاور پلانٹ انڈسٹری کے لئے ناگزیر ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات سے دوچار نیشنل گرڈ پر مکمل انحصار انڈسٹری کی طلب کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے اور اس سے ٹیکسٹائل ویلیو چین میں حساس آلات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں گرڈ کی بجلی کیپٹو پاور پلانٹس کے مقابلے میں تقریباً آٹھ روپے فی یونٹ زیادہ مہنگی ہے جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت توانائی کے حصول پر زیادہ اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انڈسٹری کی پیداواری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ نقصان کا باعث ثابت ہو گا۔ اس حوالے سے ایک اور بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ 10 میگاواٹ فی گھنٹہ سے زیادہ بجلی کی طلب رکھنے والے بڑے مینوفیکچرنگ یونٹس کو اپنے گرڈ قائم کرنے کے لئے بھاری اخراجات اور وقت درکار ہے جس سے ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو گی اور برآمدات میں اضافے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ اس فیصلے سے پاکستان کے گیس سیکٹر کی مالیاتی صورتحال بھی مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے جہاں گردشی قرضہ پہلے ہی 2,700ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر درآمدی آر ایل این جی کے سب سے بڑے صارفین میں سے ایک ہے اور دیگر شعبوں کو 100بلین روپے سے زیادہ کی کراس سبسڈی فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی معطل کرنے کے اقدام سے گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی محصولات کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے گھریلو ٹیرف کو 100فیصد تک بڑھانا ناگزیر ہو جائے گا اسلئے حکومت کو چاہیے کہ انڈسٹری اور عام آدمی کے مفاد میں یہ فیصلہ فوری واپس لے۔کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی معطل کرنے کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ دو دہائیاں قبل حکومت نے انڈسٹری کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کیلئے گیس سے بجلی پیدا کرنے کی خود اجازت دی تھی۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے انڈسٹری نے کیپٹو پاور پلانٹس لگانے پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اب اگر ان کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی معطل ہو گی تو اس سے سالانہ 20ارب ڈالر سے زائد کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری میں کام ٹھپ ہو جانے سے نہ صرف برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل متاثر ہو گی بلکہ لاکھوں مزدور بھی بیروزگار ہو جائینگے۔ اسلئے حکومت کو چاہیے کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ واپس لے کر فوری طور پر متبادل اقدامات کرے تاکہ برآمدات میں اضافہ جاری رکھ کر لاکھوں مزدوروں کو بیروزگاری سے بچایا جا سکے۔