4 ؍مئی 1974ءکو پاکستان کے آئین میں پہلی ترمیم کی گئی، اِس ترمیم کا مقصد پاکستان کی جغرافیائی حدود کا اَز سَرِ نوتعین کرنا تھا، اصل آئین میں چونکہ مشرقی پاکستان کو ’متحدہ پاکستان‘ کا حصہ لکھا ہوا تھا اِس لیے ضروری تھا کہ آئین میں ترمیم کرکے مشرقی پاکستان کا نام حذف کیا جاتا تاکہ بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر منظور کیا جا سکتا جس کا اعلان فروری 1974 میں لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمٰن سے جپھی ڈالتے ہوئے کر دیا گیا تھا۔ یہ جپھی اگر مارچ 1971 ءمیں ڈال لی جاتی تو شاید ہمیں اِس آئینی ترمیم کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بالکل اسی طرح جیسے 11اگست 1947ءوالی تقریر اگر مارچ 1940 ءسے پہلے ہو جاتی تو شاید آج.....خیر چھوڑیں اِس بات کو، واپس 1971 میں چلتے ہیں۔
اُس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ Everything was rotten in the state of Pakistan۔ جب 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستیں جیت لیں اور جنرل یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی بجائے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا تو اُس کے بعد ڈھاکہ میں ریاست کی عملداری ختم ہوگئی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کا سکہ چلنے لگا۔ لیکن آفرین ہے ہمارے بزرجمہروںپر جنہیں دیوارپہ لکھا ہوا دکھائی نہ دیا، انہوں نے عوامی لیگ پر پابندی لگا دی اور اگلے روز اخبارات میں یہ سُرخیاں لگوائیں کہ ’’سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، عوامی لیگ غیر قانونی قرار۔ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے جنرل یحییٰ کے اقدامات۔ صدر نے کہا کہ ہم وطن معقول شہریوں کی طرح برتاؤ کریں۔‘‘ یہ خبریں ہیں 27مارچ 1971ء کی۔ اُس سے اگلے دن کی سرخیاں مزید مضحکہ خیز ہیں، ملاحظہ ہوں: ’’فوج کا مشرقی پاکستان پر مکمل کنٹرول۔ شیخ مجیب کو اُن کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا۔ زندگی معمول کے مطابق۔ کام کاج بحال۔‘‘ پھر شروع ہوا فوجی آپریشن جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ مغربی پاکستان میں اِس آپریشن کی برائے نام مخالفت کی گئی، ویسے بھی اخبارات پر سنسر شپ عائد تھی اور کوئی خبر حکومت کی اجازت کے بغیر شائع نہیں ہو سکتی تھی لیکن اِس کے باوجود مغربی پاکستان کے عوام تقریباً اِس سے لا تعلق تھے کہ مشرق میں اُن کے ہم وطنوں پر کیا بیت رہی ہے۔ اسی فوجی آپریشن کے دوران مکتی باہنی، البدر اور الشمس جیسے مسلح گروہ بھی وجود میں آئے اور تشدد میں مزید اضافہ ہوا۔ مشرقی پاکستان کی صورتحال اُس وقت کچھ یوں تھی کہ سوائے بہاریوں اور مٹھی بھر بنگالی اسلام پسندوں کے، کوئی بھی قابل ذکر طبقہ متحدہ پاکستان کے حق میں نہیں تھا، حتّیٰ کہ مشرقی پاکستان رائفلز کے یونٹ بھی باغیوں میں شامل ہو کر منحرف ہو گئے، اور کلکتہ میں پاکستانی قونصل خانے کا تمام سفارتی عملہ بھی منحرف ہو کر نام نہاد بنگلہ دیش حکومت میں شامل ہو گیا۔ عوامی لیگ نے ایک متوازی حکومت قائم کر کے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا اور بھارت میں ایک عبوری سیٹ اپ بنا دیا جو بنگالیوں کو روزانہ کی بنیاد پر احکامات جاری کرتا تھا۔ آزادی کا یہ اعلان 10 اپریل 1971 کو کیا گیا۔
پھر انٹری ہوئی جنرل نیازی کی، اُس نے شروع شروع میں بہت بڑھکیں لگائیں اور دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج اُس کی لاش سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہوگی اور یہ کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن مشرقی پاکستان اُس کے ہاتھوں سے یوں نکل گیا جیسے مٹھی میں سے ریت۔ تاہم پاکستانی اخبارات اُس وقت بھی حوصلہ افزا خبریں ہی شائع کر رہے تھے۔ یکم اپریل 1971کی سُرخی دیکھیے: ’’مشرقی پاکستان کی صورتحال مزید بہتر، لوگ سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ شاپنگ سنٹرز میں گہماگہمی۔‘‘ آگے پڑھیے: ’’دراندازوں کو سلہٹ اور دیگر علاقوں سے نکال باہر کر دیا گیا، ائیر فورس کی مدد سے آپریشن جاری۔ ڈھاکہ میں کرفیو میں نرمی۔‘‘ اِن خبروں کے ساتھ ہی مارشل حکومت کے سورماؤں کی تصاویر شائع کی جاتیں جن میں وہ سوٹ ٹائی میں ملبوس اجلاسوں کی صدارت کرتے یوں نظر آتے جیسے راولپنڈی میں بیٹھ کر وہ سب کچھ کنٹرول کر رہے ہیں۔ ایک اور خبر ملاحظہ ہو: ’’مشرقی پاکستان کی صورتحال میں مزید بہتری۔ کرفیو کم۔ سفارتکاروں کا چٹاکانگ کا دورہ۔‘‘ اِس کے ساتھ ہی ایک تصویر جس کے نیچے کیپشن تھا: ’’خریداروں کا ڈھاکہ کے بازار میں رَش۔‘‘ خبروں کے علاوہ اُن دنوں اشتہارات بھی اسی قسم کے شائع ہوتے تھے جن میں عوام سے یا تو چندے کی اپیل کی جاتی تھی یا پھر انہیں یاد دلایا جاتا تھا کہ جیسے ہم نے 1965 میں دشمن کے دانت کھٹے کیے تھے اِنشااللہ اسی طرح اِس مرتبہ بھی کریں گے۔ مارننگ نیوز انگریزی اخبار تو سب سے بازی لے گیا، جس وقت مشرقی پاکستان کے بڑے حصے جنگ کی لپیٹ میں تھے، اخبار نے منی اسکرٹس پہنی ہوئی لڑکیوں کی تصاویر ایک مضمون کے ساتھ شائع کیں اور قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ اِس موسم بہار میں منی اسکرٹ کا فیشن پھر آرہا ہے، گویا لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ ملک میں سب کچھ نارمل ہے اور انہیں یہ نہ لگے کہ وہ کسی جنگ زدہ علاقے میں ہیں۔ اسی کے ساتھ کبھی کبھی ’نصر من الله وفتح قريب‘ کا اشتہار بھی شائع ہوتا تھا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ فتح کے اِن اعلانات کے بیچ اچانک 16دسمبر 1971ءکو یہ خبر آگئی کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ہے اور بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ تھا جو اِس پاکستانی قوم کے ساتھ ہوا۔
ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچ سکتا تھا؟ اِس ضمن میں کوئی حتمی جواب تو دینا مشکل ہے مگر 13 دسمبر 1971ءکو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو جو خط لکھا اسے پڑھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ ممکن تھا۔ مسز گاندھی لکھتی ہیں کہ ’’اگر پاکستان بنگلہ دیش سے اپنی فوجیں واپس بلا لیتا ہے اور وہاں کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر سیاسی حل نکال لیتا ہے تو جنگ بندی اور ہندوستانی مسلح افواج کا انخلا ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نہیں جانتا کہ اِس پیشکش کا کیا نتیجہ نکلا۔
پاکستان کوئی پہلا اور آخری ملک نہیں جو ٹوٹا ہے، تاریخ میں ریاستیں ٹوٹتی بکھرتی رہی ہیں، متحدہ ہندوستان بھی ٹوٹ کر ہی پاکستان اور بھارت بنا تھا، یہ تاریخ میں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، اصل سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان کا ایک ٹکڑا ترقی کر سکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں کرسکا؟ اِس سوال کا جواب ریاضی کی مدد سے دیا جا سکتا ہے کہ ”مشترک نکال کر دکھائیں‘‘۔ لیکن فی الحال یہ موضوع نہیں۔ موضوع یہ تھا کہ نصف صدی بیت گئی، کیا ہم اپنی غلطیوں کی درست فہرست ہی بنا پائے؟ اِس کایک لفظی جواب ہے، نہیں! حبیب جالب کا شعر پھر یاد آتا ہے۔
حسیں آنکھوں مَدُھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھو کر
میں حیراں ہوں وہ ذکرِ وادی کشمیر کرتے ہیں