• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل یہ خبر بہت زیر بحث ہے کہ میانوالی اور چکوال میں کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں بہت رفتار سے بڑھ رہی ہیں اور اگر اس پر فوری طور پر سخت ایکشن نہ لیا گیا تو یہ آگ بہت کچھ جلانے کی صلاحیت حاصل کرلے گی ۔ خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ یقینی طور پر پاکستان کے مقتدر حلقوں پر یہ حقیقت واضح ہوگی اور وہ اس پر کارروائی کیلئے حکمت عملی بھی تیار کر رہے ہونگے ۔ کیونکہ افغان طالبان کے حوالے سے بھی اختلاف رائے کی خبریں گرم ہیں ۔ جب کوئی ایک ماہ قبل یہ خبر سامنے آئی کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت الله نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور افغان طالبان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے اختیارات محدود کرتے ہوئے ان تینوں کے فوجی ساز و سامان کے حوالے سے اختیارات کم بلکہ عملی طور پر ختم کردیئےہیں۔ تو ان خبروں میں صداقت محسوس ہونے لگی جو کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سفارتی حلقوں میں گردش کر رہی ہیں کہ افغان طالبان کے امیر اور بعض افغان طالبان کے دیگر لیڈران میں اختلافات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ یہ صرف باہمی گفتگو یا تبادلہ خیالات تک ہی محدود نہیں بلکہ افغان طالبان کے امیر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کو سب کو یہ واضح پیغام پہنچا دینا چاہئے کہ ان کی اقتدار اور طالبان کے اندرونی امور پر مکمل گرفت برقرار ہے اور اگر کسی کے رویے سے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو کچھ پالیسیوں پر تحفظات یا اختلافی نقطہ نظر ہیں بھی تو اس سے ان کی اتھارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وزیر داخلہ کے اختیارات ختم کر کے انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ حقانی نیٹ ورک ہو یا کوئی اور جب چاہیں انکے حوالے سے وہ کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ حقانی نیٹ ورک کا میں نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ ایک عرصے سے یہ تصور قائم ہو رہا ہے کہ افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج حقانی کو افغان طالبان کے امیر ملاہیبت الله کے طرز حکمرانی اور بہت سارے امور پر اختیار کی گئی پالیسیوں سے اختلاف ہے ۔ ویسے اختلاف رائے رکھنے والوں میں افغان طالبان کے وزیر خارجہ متقی ، نائب وزیر خارجہ عبّاس ستانکزئی، نائب وزیر اعظم ملا برادر اور ملا یعقوب کے بھی نام لئے جاتے ہیں مگر یہ تمام افراد اپنے اختلاف رائے کے حوالے سے بہت محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور عوامی سطح پر اس کے اظہار سے اجتناب ہی کرتے نظر آتے ہیں مگر سراج حقانی اس پر ذرا عوامی انداز بھی اپنا لیتے ہیں ۔ ویسے تو ان کی شناخت اس حوالے سے ہو رہی ہے کہ وہ افغان طالبان کی جانب سے خواتین پر طب کی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے عائد پابندیوں سے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں مگر یہ صرف ایک علامتی اختلاف رائے ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ اختلاف بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے بلکہ سراج حقانی کے نقطہ نظر سے بہت سارے امور ایسے ہیں کہ جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور افغان طالبان کے امیر اس پر بات تک کرنےکو تیار نہیں۔ بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ ملا ہیبت اللہ ایران سے تعلقات کو بہتر کرنے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایران کو مکمل طور پر افغان طالبان کے حوالے سے مثبت یا کم از کم غیر جانبدار کیا جا سکتا ہے مگر سراج حقانی ایران کے حوالے سے سخت خیالات ہی رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تصور کی جا رہی ہے کہ انکے سر پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھنے کے باوجود ان سے امریکی سفارت کار مستقل بنیادوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں اور امریکی سفارت کار یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایران کو افغانستان میں گرم زمین کی بجائے ٹھنڈی ہوا سے واسطہ پڑا تو خطے میں امریکی مفادات کیلئے مزید مسائل پیدا ہونگے اور اسی وجہ سے وہ سراج حقانی کو بھی قائل کر چکے ہیں کہ ملاہیبت اللہ کی اس ضمن میں حکمت عملی درست نہیں ہے ۔ پھر داعش یعنی دولت اسلامیہ ولايت خراسان سے نبٹنے کی حکمت عملی پر بھی ملا ہیبت اللہ کے ہم خیال نہیں اور نہ ہی انکی پاکستان پالیسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں ۔وہ اپنی اس پوزیشن کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ جس میں ان کو درانی اور غلزئی پشتونوں کی تاریخی مخاصمت کے ذیل میں ایک امن کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور افغان طالبان کیلئے اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ سراج حقانی نے ابھی چند روز قبل ایک تقریب میں خیالات کا اظہار اس وقت بہت بے دھڑک ہو کر کیا جب ان سے قبل افغان طالبان کے وزیر تعلیم ندا ندیم نے تقریر کرتے ہوئے افغان طالبان کے مخالفین کیلئے بہت ہی سخت زبان استعمال کی ۔ ندا ندیم کے الفاظ تو یہاں نقل کرنا مناسب نہیںمگر ان کے بعد سراج حقانی نے ندا ندیم کے تصورات کے بر عکس اپنی تقریر میںکہا کہ اتنے سخت الفاظ کا استعمال درست نہیں،اسلامی نظام کے تحت لوگوں کی تربیت ہماری ذمہ داری ہے اور اگر اسکے باوجود وہ کوئی اور سوچ اپناتے ہیں تو اسکی وجہ ہماری تنگ نظری اور کمزوری ہوگی ۔اگر ہم طالبان کے نظم حکومت کی جانب توجہ دیں تو ایسی گفتگو کا یوں برملا کرنا غیر معمولی اضطراب کو ظاہر کرتا ہے ۔ ابھی کچھ روز قبل قطر کے قومی دن کی تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شہباز شریف تھے ۔قطر کی پاکستان سے دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے ۔ قطری سفیر جب سے اسلام آباد میں آئے ہیں اس وقت سے بہت محنت سے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی تگ و دو میں ہیں ۔ پاکستان کو افغان طالبان سے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے بھی قطر کی اس دوستی کو استعمال کرنا چاہئے ۔

تازہ ترین