• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈی چوک، اسلام آباد کے اطراف میں ریاست کے اہم دفاتر موجود ہیں۔ 24سے 26نومبر کے دوران اس چوک سے جُڑے واقعات کا تذکرہ بین الاقوامی میڈیا پر ہونے سے ڈی چوک بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ 24نومبر کے مظاہرے کا اعلان ہونے پر پنجاب سے اسلام آباد تک رسائی کے تمام راستے مسدود ہو گئے۔ خیبر پختونخوا سے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے پر رکاوٹیں تھیں۔ آنسو گیس کا بے دریغ استعمال ہوا، مگر جذباتی کارکنوں کے قافلے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بالآخر 26 نومبر کی شام ڈی چوک پہنچے۔ اس مشکل مرحلے کو سر کرنے پر پی ٹی آئی کے سپورٹرز میں اُمید پیدا ہوئی کہ مطالبات منوانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے، مگر نصف شب سے پہلے ہی یہ اُمید دم تو ڑگئی۔اُس رات ڈی چوک میں جو ہوا، اُن واقعات پر حکومتی وزراء اور پی ٹی آئی کے ترجمانوں کے درمیان الزام تراشی کی جنگ جاری ہے۔ گولی چلی یا نہیں ، اگر چلی تو کس نے چلائی ؟ کتنی ہلاکتیں ہوئیں؟ ذمہ دار کون ہے؟ ان تہمتوں کی صحت کا حتمی تعین نہیں ہو سکا۔ بہتان تراشی ابھی جاری ہے۔ البتہ اس مباحثے کی حدت نے بہت سے حکومتی ترجمانوں، اپوزیشن رہنماؤں، صحافیوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا کے متحرک کھوجیوں کی ساکھ کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ ہر پاکستانی کو قانون یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرے۔ اگر نہتے اور معصوم شہری اسی قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچ گئے تھے تو پاکستان کا آئین حکومت کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلح جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے معصوم مظاہرین کو بزور طاقت منتشر کرے۔ دوسری طرف حکومت پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کو انتشاری ٹولہ کہتی ہے۔ وزراء ٹیلی وژن پروگراموں میں بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ڈی چوک آنے والے مظاہرین میں تربیت یافتہ مسلح غیر ملکی شامل تھے جنہیں اس حساس جگہ سے ہٹانا ضروری تھا۔ پی ٹی آئی کے ترجمانوں کا موقف ہے کہ پُر امن مظاہرین میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔26 نومبر کے واقعات اب قصۂ پارینہ ہو گئے۔ ملکی سیاست پھر سے رواں ہو گئی۔ اب فضاؤں میں سول نافرمانی کا تذکرہ ہے۔ عوام پی ٹی آئی کے آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ دوبارہ ڈی چوک پر مظاہرہ کرنے کی کوشش میں کامیابی کا امکان کیا ہوگا؟ اس بارے جناب علی امین گنڈا پور کے بیان میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو جوش دلانے اور خون گرم رکھنے کے لیے ، اُن کا انداز عمومی طور پر جارحانہ ہوتا ہے۔ چند دن پہلے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا ”ہم پانی پت کے برابر آچکے ہیں اور سومنات کی طرف بڑھ رہے ہیں ..... : سومنات والے بتوں کو توڑنے کے لیے سترہ حملے کیے جاسکتے ہیں ، مگر سب کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ یہ پہلے شکست کھا جائیں گے۔“ علی امین گنڈا پور کا یہ اعلان ، پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ 26 نومبر کے واقعات پر پی ٹی آئی کا موقف دو نکات پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ مظاہرین کی صفوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں تھا اور نہتے پارٹی کارکن غیر مسلح تھے۔ دوم یہ کہ وہ اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے ، ڈی چوک میں پُر امن دھرنا دینے کے خواہشمند تھے۔ اس موقف کی بنا پر پارٹی عوام کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ علی امین گنڈا پور کی شعلہ بیانی ، پی ٹی آئی کی سیاسی کاوشوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پانی پت میں ہونے والی جنگوں اور سومنات پر حملے کاذکر پارٹی مؤقف کی نفی دکھائی دیتا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے فرمایا ”ہم پانی پت کے برابر آچکے ہیں اور سومنات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ وہ جوش خطابت میں یہ بھول گئے کہ پانی پت کا میدان، دہلی سے ساٹھ ستر میل دور، ہندوستان کے صوبہ ہریانہ میں واقع ہے اور سومنات ، پانی پت سےسینکڑوں میل دُور، صوبہ گجرات کے جنوبی کونے میں ہے۔ ان دونوں معرکوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ اور میدان جنگ کی خون ریزی کے علاوہ بہت کم مشترک ہے۔ پانی پت کے مشہور میدان میں تین جنگیں لڑی گئیں۔ ہر دفعہ اقتدار کے حصول میں ان ہلاکت خیز معرکوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ پہلی جنگ 1526ء میں ظہیر الدین بابر اور دہلی کے حکمران ابراہیم لودھی کے درمیان ہوئی اور بابر کی فتح نے مغلیہ اقتدار کی بنیاد رکھی۔ دوسری جنگ ، اُس کے تیس برس بعد 1556ء میں بابر کے پوتے ، اکبر اور سوری خاندان کے سپہ سالار ہیموں کے درمیان ہوئی جس میں اکبر فتح یاب ہوا۔ تیسرا خونریز معرکہ، 1761ء کے دوران افغان تاجدار، احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان ہوا۔ دونوں فریق جنگ کے نتیجے میں اتنے کمزور ہوئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے ہندوستان پر اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی۔

علی امین گنڈاپور جو راقم کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے ہیں تاریخی واقعات سے واقف ہوں گے۔ اُن کے علم میں ہوگا کہ سترہ حملوں میں پہلا حملہ پشاور پر ہوا تھا اور اس حملے کے تقریبا ًپچیس برس بعد ، افغان تاجدار، محمود غزنوی کے لشکر نے سومنات کا مندر توڑا۔ اسی طرح ، پانی پت کی جنگوں میں حصہ لینے والے مجاہدین کا تعلق پاکستان کے موجودہ علاقوں سے نہیں تھا۔ پانی پت اور سومنات کے حوالے سے ، علامتی طور پر ہی سہی علی امین گنڈا پور، پی ٹی آئی کے مظاہرین کا تعلق افغانستان کے ان سرفروشوں سے جوڑ رہے ہیں جو پوری طرح مسلح تھے اور اپنے ہدف کے حصول میں خون بہانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ سومنات اور پانی پت کا تاریخی حوالہ کسی طور بھی مناسب نہیں ۔ وجہ بہت سادہ ہے۔ زندگی اور موت سے لا پروا افغان سر فروش نہ نہتے تھے اور نہ پُر امن۔ نہ ہی وہ سومنات کے مندر یا پانی پت میں دھرنا دینے گئے تھے۔

تازہ ترین