• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2014ء کا سال پاکستان کے عوام پر بڑا بھاری ثابت ہورہاہے۔اگرچہ یہ تبدیلیوں کا سال ہے اور عالمی سطح بالخصوص جنوبی ایشیاء میں ان متوقع تبدیلیوں کے اثرات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء کا مرحلہ چونکہ قریب ہے چنانچہ پاکستان کی داخلی صورت حال کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سنبھلنے نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان میں امن کی بحالی کاسفر جاری ہے۔حکومت،طالبان مذاکرات کے نتیجے میں بڑی حد تک حالات معمول پر آچکے ہیں۔ملک دشمن بیرونی قوتوں کو یہ امن عمل ’’ہضم‘‘ نہیں ہو رہا۔ مذاکراتی عمل میں حکومت کی جانب سے غیر ضروری تاخیر انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کا بھی کہنا ہے کہ وعدے کے باوجود حکومت کا13طالبان قیدیوں کو ابھی تک رہانہ کرنا، معاملات میں پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ اس صورتحال کاسارا فائدہ مذاکرات مخالف قوتوں کو ہو گا۔
میڈیا،عدلیہ اور فوج پاکستان کے قابل قدر ادارے ہیں۔ لگتاہے کہ ان اداروں کو آپس میں لڑانے کی گھنائونی سازش تیار کی گئی ہے۔اب رہی سہی کسر صحافیوں کو ٹارگٹ بناکر نکالی جارہی ہے۔ملک کے معروف سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔حامد میر کے نقطہ نظر، سوچ اور نظریات سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر انہیں انتقامی نشانہ بنانا ہر لحاظ سے افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ کراچی میں جہاں حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا وہاں پہلے جیونیوز کے صحافی ولی خان بابر کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔ اس کیس کے عینی شاہدین بھی یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے لیکن ولی خان بابر کے قتل میں پس پردہ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ممکن نہیں ہو سکا۔ حامد میر پر حملے کے بعد ان کے بھائی عامر میر کا ایک بیان بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آیا جس کی روشنی میں تفتیش کا دائرہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ بغیر ثبوت کے پاکستان کے کسی بھی ادارے کا میڈیا ٹرائل بھی نہیں ہونا چاہئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سول اور فوجی قیادت اس نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کیا کردار اداکرتی ہے؟حامد میر پرحملے کے واقعہ میں ٹائمنگ کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ جس روز حامد میر کراچی پہنچے اور ان پر حملہ ہوا اس کے چند گھنٹوں بعد جنرل(ر)پرویز مشرف بھی کراچی پہنچے اور وہ اسی راستے سے گزر کر بخیریت اپنی منزل تک پہنچ گئے۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کی کراچی میں روانگی ایک اہم واقعہ تھا مگر حامد میر پر حملے سے پرویز مشرف کی کراچی روانگی کی خبر پس منظر میں چلی گئی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جنرل پرویزمشرف کو کراچی اس لئے لے جایا گیا ہے کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں بیرون ملک روانہ کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے آئندہ چند روز بڑے اہم ہیں۔اسلام آباد میں وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ون ٹو ون ملاقات میں اس کے متعلق تمام معاملات طے پاگئے ہیں۔ نوازشریف حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے بچنا ہو گا۔ اگر حکومت پرویز مشرف کو حسین حقانی کی طرح ملک سے باہر نکالنے میں شریک ہوئی تو یہ بات آئین، قانون اور اعلیٰ عدالتوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گی۔اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس پر خصوصی نظر رکھنا ہوگی کہ کہیں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کی’’سودے بازی‘‘سے اس کے وقار پر ضرب نہ پڑے۔یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگاکہ حسین حقانی جب سے بیرون ملک گئے ہیں اعلیٰ عدالتوں کی طلبی کے باوجود وہ پاکستان واپس نہیں آئے اور نہ عدالتوں کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے۔اگر پرویز مشرف بھی اسی طرح ملک سے نکل گئے تو قانون کی حکمرانی محض ایک ایساخواب بن کر رہ جائے گی جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوگا۔ان کے جرائم فرد واحد کے ہیں اس لئے ادارے کو اسے اپنا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ آج وہ اگر مکافات عمل سے دوچار ہیں تو انہیں ہر گزکسی قسم کا ریلیف نہیں ملنا چاہئے۔
جنوبی ایشیاء کے بدلتے ہوئے منظرنامے اور افغانستان کے مخصوص حالات کے باعث صحافیوں کو ٹارگٹ بنانے جیسے واقعات میں ’’تیسری قوت‘‘ کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جو میڈیااور فوج کو مدمقابل لانا چاہتی ہو۔آخر ریمنڈڈیوس بھی تو امریکی جاسوس ہی تھا وہ کوئی طالبان یاپاکستان کی کسی خفیہ ایجنسی کااہلکار تونہیں تھا؟یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ولی خان بابر کو کراچی میں قتل کرانے والے کون تھے؟ ان کے مقاصد کیاتھے؟ حامد میر پرحملے کی تفتیش میں اگر ان باتوں کو بھی مدنظر رکھا گیا تو جلدہی دودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہو جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے اس اہم معاملے پر سپریم کورٹ کے تین ارکان پر مشتمل عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے۔ اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کے ذریعے اس واقعے کے اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حامد میر نے لاپتہ افراد کے کیس، عدلیہ بحالی موومنٹ اور ملکی و قومی ایشوز پر اپنے قلم اور ٹاک شوز کے ذریعے قابل تحسین کردار ادا کیا ہے۔ ان کی رائے سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی جرأت مندانہ صحافت کے قائل ہیں۔وقت گزرنے کیساتھ چونکہ پاکستان میں جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔عدلیہ،میڈیا سمیت تمام ملکی ادارے جمہوری استحکام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا مضبوط اور مستحکم جمہوریت کیلئے لازم ملزوم ہیں۔تمام اداروں کو ایک دوسرے پر غالب آنے کے بجائے آپس میں باہمی احترام،تحمل اور رواداری کو فروغ دینا چاہئے۔بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
پاکستان نے طویل عرصہ آمریت کے سایوں میں وقت گزارا ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا سمیت تمام اداروں کے فرائض اور اختیارات میں توازن ضروری ہے۔جب تک پاکستان میں یہ توازن قائم نہیں ہو گا آمریت کی تلوار سروں پر لٹکتی رہے گی۔میڈیا کی اولین اور بنیادی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ حالات و واقعات کی درست تصویر پیش کرے۔سنسنی خیزی پیدا کرنے سے حتی المقدور گریز کرنا چاہئے۔ امریکی اور یورپی ممالک حتیٰ کہ بھارت کا میڈیا ہمیشہ اپنے قومی مفادات کا خاص خیال رکھتا ہے، ہمیں بھی ہر لمحے یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ کہیں ہمارے کسی طرزعمل سے ہمارے قومی مفادات کو ٹھیس تونہیں پہنچ رہی۔یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے اس پر توجہ دینا وقت کااہم تقاضاہے۔ صحافیوں سمیت معاشرے کے کسی فرد کی جان لینے کی کوشش کرنا سفاک اقدام ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کابھی یہ فرض ہے کہ وہ حامد میر سمیت صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں کافوری نوٹس لیں۔ کیا پاکستان میں جنگل کا قانون ہے کہ یہاں کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے۔ یہ کوئی کیڑے مکوڑے نہیں کہ جو بھی چاہے انہیں اپنے پیروں تلے روند ڈالے۔ جہاں تک لاپتہ افراد کامعاملہ ہے ان کا بھی قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے کھلی عدالتوں میں مقدمہ چلانا چاہئے۔ یہ انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے کہ لاپتہ افراد کئی سالوں سے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں اور ان کے پیارے دربدر ان کی تلاش میں عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ تمام خفیہ ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں۔وزیر اعظم نوازشریف کو حامد میر کے معاملے کوٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہئے۔آزادانہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات کے ذریعے قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیاجائے کہ آیااس میں کوئی خفیہ ادارہ ملوث ہے کہ نہیں؟ اگر اس میں کوئی بیرونی ’’تیسری قوت‘‘ کا ہاتھ ہے تو اسے بھی عوام کے سامنے لایاجائے؟ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم پاکستان میں آئین وقانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں یاپھر آئندہ بھی کسی طالع آزما کوموقع دینا چاہتے ہیں ۔ہم نے اگر ترقی کرنا ہے اور باوقار قوموں کی طرح زندگی گزارنی ہے تو اپنے اندر برداشت کاجذبہ پیدا کرنا ہو گا۔
تازہ ترین