بے شک اللہ ہی بڑا ہے۔ اس کا اپنانظام ہےوہ جب چاہے جس کی چاہے رسی کھینچ لیتا ہے۔ وہ زمین سےاٹھا کر تخت پر بٹھاتا ہے اور تخت سے منہ کے بل زمین پر گرادیتا ہے۔اس لئے انسان کو سوچ سمجھ کر چلنا چاہیے وہ چاہے بادشاہ ہو یا غریب۔ہم نے ماضی قریب میں ایسی کئی مثالیں دیکھی ہیں کہ حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح تخت سے زمین پر پھینکتاہے۔ ہم ان کا حشر بھی دیکھ رہے ہیں جو محض اقتدار کیلئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوںکی جھوٹے اور گمراہ کن نعروں کے ذریعے ذہن سازی کوششیں کرتے رہے ۔ قوم اورفوج کے درمیان دوری پیدا کرنے اور دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ نوجوانوں کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے اکسایا اورحدیہ کر دی کہ شہداء کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا لیکن نظام قدرت دیکھئے کہ جس امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگاتے رہے اور بیانئے بنا کرقوم کو امریکہ کے خلاف اکساتے رہے اب اسی امریکہ سے آس لگا کر بیٹھے ہیں اور اس سے اپنے ملک پر دبائو ڈلوانے میں مصروف ہیں۔ یقیناً یہ تدبیر بھی الٹی پڑ ئے گی ۔
بانی پی ٹی آئی کا آخری کارڈ بھی سول نافرمانی کی شکل میں سامنے آگیا ہے لیکن اور کوششوں اور کارڈز کی ناکامی کی طرح وہ یہ دائو بھی ہارتے نظر آرہے ہیں۔ ان کو اس اعلان کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی سول نافرمانی کی کال انکی نافرمانی پر منتج ہو جائے گی۔ انہوں نے حسب سابق اس پر بھی یوٹرن لے کر اب اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں ترسیلاتِ زر سے منع کیا۔ شائد ان کو معلوم نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوںکی پارٹی وابستگی اپنی جگہ اس سے کہیں بڑھ کر انکی اپنے ملک میں بڑی اور اہم ذمہ داریاں ہیں جن کو وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے اس لیے بانی پی ٹی آئی کا یہ کارڈ یا دائو بھی ان کیلئےشرمندگی کا باعث ہو گا۔ معلوم نہیں ان کو یہ الٹے مشورے کون لوگ اور کیوں دیتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کو دیکھئےکہ سول نافرمانی کی نام نہاد کال سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی حکومت اتنی کمزور ہو کہ ایک خالی خولی دھمکی سے ڈر جائے تو اس کو گھر چلے جانا چاہیے۔ نہ تو بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال دینی ہے نہ اس پر کوئی عمل کرنے کو تیار ہے۔جہاں تک مذاکرات کی بات ہے تو کیاحکومت انکے ان مطالبات ماننے کیلئے تیار ہےجو انہوں نے سامنے رکھے ہیں اور اگر حکومت اس کیلئے تیار نہیں تو پھر مذاکرات کی بات پر ہاں ہوں کیوں کرتی ہے۔ صاف کیوں نہیں کہتی کہ ہم صرف ملکی ،معاشی اور سیاسی استحکام کے معاملات پر ہی بات چیت کر سکتے ہیں۔ ذاتی اور عدالتی معاملات پر مذاکرات کا نہ ہمیں قانونی حق حاصل ہے نہ اختیار۔
حکومت پر بھی حیرت ہے کہ اس کو یہ ادراک ہی نہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے ان ’’چوروں ڈاکوئوں‘‘ سے مذاکرات کیلئے ازخود کمیٹی کیوں بنائی جن سے وہ ہاتھ ملانے کا بھی روا دار نہیں تھے ۔وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کریں گے جو بااختیار ہے۔ اس حکومت کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں تو پھر اس سے مذاکرات کا کیا فائدہ۔ دوسرا یہ کہ وہ تو اس حکومت کو مانتے ہی نہیں پھر اس سے مذاکرات کا مطلب تو اسکی آئینی اورجمہوری حیثیت کو تسلیم کرنا ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے تو شروع سے ہی واضح کر رکھاہے کہ وہ نہ کسی سے بیک ڈور یا فرنٹ ڈور مذاکرات کر رہی ہے نہ کرے گی۔ سیاسی لوگ آپس میں مذاکرات کرتے ہیں تو بے شک کریں۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر کوئی یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی درپردہ بات چیت ہوئی ہے یا چل رہی ہے تو یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اچانک مذاکرات کیلئے خود سے کیوں تیار ہوئے بلکہ شروع میں جو تین مطالبے رکھے تھے ان میں سے مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ بھی نکال دیا اور صرف دو مطالبات رکھے ہیں ایک بانی پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹی کارکنان کی رہائی کا اور دوسرا 9؍مئی اور 26نومبر کی جوڈیشل انکوائری کا،حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ دونوں بھی قانونی اور عدالتی معاملات ہیں اور 9؍ مئی کے معاملے پر معافی یا خلاصی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بصورت دیگر یہ ملک، فوج، شہداء اور قوم کی توہین کےمترداف ہوگا۔ سوال پھر وہی ہےکہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بانی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر کیوں آمادہ ہے اور مذاکرات کیلئے ہاں میں ہاں کیوںملا رہی ہے ۔ اس حوالے سے قوم ایک کنفیوژن کا شکار ہے جو ختم ہونی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی بانی پی ٹی آئی کی ایک چال ہے کہ مذاکرات کی بات چلا کر معاملات کو 20جنوری تک طول دیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان سے فرار بعض لوگ جوباہر بیٹھ کر لابنگ کر رہے ہیںصدر ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی پاکستان پر دبائو ڈال کر اُن کو رہا کروا دیں گے کیونکہ اب امریکی غلامی ایبسلوٹلی ’’یس‘‘ ہے۔ انکے خیال میں امریکی صدر ٹرمپ نے رچرڈ گرنیل کو ’’خصوصی فرائض‘‘ سرانجام دینے کا سفیر مقرر کیا ہے جو بانی پی ٹی آئی کا حامی خیال کیا جاتا ہے اس امریکی نے 26نومبر کو بھی ایک ایکس پیغام میں بانی کی رہائی پر اظہار خیال کیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی کاخیال کبھی درست ثابت نہیں ہو گا۔ اگر اس طرح کسی کے کہنے پر عدالتی و قانونی فیصلے ہوتے تو امریکہ کےایڑ ی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود شکیل آفریدی کو پاکستان نے 13سال گزرنے کے باوجود وہاںکیوں نہیں بھیجا؟ امریکہ کسی کی غیر قانونی رہائی کا کہنے سے پہلے عافیہ صدیقی کو تو رہا کرے باقی باتیں اس کے بعد۔ یہ بیل بھی منڈھے چڑھنے والی نہیں، کوئی جو مرضی سوچے یا کرے کیونکہ یہ ریاست پاکستان کا معاملہ ہے کوئی مذاق نہیں۔