• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں برس کراچی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں سردی کی شدت میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ متعدد موسمیاتی اور ماحولیاتی عوامل ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے موسمی حالات کو متاثر کر رہے ہیں۔ 

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں، جن کا اثر اب پاکستان میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسمی پیٹرن تبدیل ہو رہے ہیں، جو سردی اور گرمی دونوں کے موسموں میں شدت کو کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔

عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ

عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ سے مراد زمین کے اوسط درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں جیسے کہ فوسل فیول کا استعمال، صنعتوں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز۔ یہ گیسز زمین کی فضا میں جمع ہو کر سورج کی حرارت کو زمین کی سطح کے قریب رکھتی ہیں، جس سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔

موسمیاتی سائنسدانوں کے مطابق، اگر موجودہ رفتار سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج جاری رہا، تو زمین کا اوسط درجہ ٔحرارت مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے نہ صرف گرمیوں کی شدت میں اضافہ ہو گا بلکہ سردیوں کی شدت اور دورانیہ بھی متاثر ہوگا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اضافے سے زمین کا درجہ ٔحرارت بڑھنے کے نتیجے میں موسموں میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ 

یہ اضافہ نہ صرف زمین کے ماحول کو گرم کر رہا ہے بلکہ سمندری سطح، برفانی علاقوں کی پگھلنے کی شرح اور موسمیاتی پیٹرنز کو بھی بدل رہا ہے۔ عالمی سطح پر اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ پاکستان کے جنوبی اور ساحلی علاقوں میں بھی نمایاں ہے، جو ملک کے موسمی حالات کو مزید گرم بنا رہا ہے۔ خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں سردیوں کا موسم مختصر اور معتدل ہوتا جا رہا ہے۔

ایل نینو اور لا نینا کی موسمیاتی تبدیلیوں پر اثرات

ایل نینو اور لا نینا بحر الکاہل میں واقع موسمیاتی مظاہر ہیں جو پانی کے درجۂ حرارت میں تبدیلی کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ ایل نینو کے دوران بحر الکاہل کا پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے، جس سے جنوبی ایشیاء میں بارشوں اور سردی کی شدت میں کمی آتی ہے۔ دوسری طرف لا نینا کے دوران پانی کا درجۂ حرارت معمول سے کم ہوتا ہے، جس سے سردیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

اس سال کے موسمیاتی تجزیے کے مطابق ایل نینو کی شدت زیادہ ہونے کے امکانات ہیں، جو کہ کراچی سمیت ملک بھر میں سردی کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ ایل نینو کی موجودگی سے جنوبی ایشیا میں موسمی پیٹرن تبدیل ہو جاتے ہیں اور گرم ہوائیں ان علاقوں میں آتی ہیں، جس کی وجہ سے سردی کم ہو جاتی ہے۔

ایل نینو اور لا نینا موسمی پیٹرنز میں بڑی تبدیلیاں لاتے ہیں اور ان کا اثر خاص طور پر مون سون، خشک سالی اور بارشوں کے دورانیے پر پڑتا ہے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کے مطابق اگر ایل نینو کی شدت زیادہ ہوئی، تو پاکستان میں بارشوں کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے اور خشک سالی کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ اس سے ملک میں زراعت اور پانی کے وسائل پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی

فضائی آلودگی بھی موسمیاتی تبدیلی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گاڑیوں، صنعتوں اور گھروں سے نکلنے والی آلودگی نہ صرف ہوا کے معیار کو خراب کرتی ہے بلکہ موسمی حالات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ فضا میں موجود PM2.5 جیسے ذرّات سورج کی حرارت کو زمین کی طرف موڑتے ہیں، جس سے سردی کی شدت میں کمی آتی ہے۔ یہ آلودہ ذرّات اربن ہیٹ آئلینڈ ایفیکٹ پیدا کرتے ہیں، جس سے شہروں میں درجۂ حرارت زیادہ رہتا ہے اور سردی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔

کراچی جیسے بڑے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی کی شرح زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے موسم گرم رہتا ہے اور سردیوں کی شدت کم ہوتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضائی آلودگی انسانی صحت کے لئے خطرہ ہے اور اس سے پھیپھڑوں کی بیماریوں، دل کی بیماریوں اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لئے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ شہری علاقوں میں ہوا کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر اثر

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی معیشت بڑی حد تک زرعی پیداوار پر منحصر ہے۔ مختلف فصلیں خاص طور پر سرد موسم میں بہتر اُگتی ہیں جیسے کہ گندم، چاول اور چنے کی فصلیں۔ سردی کی کمی ان فصلوں کی پیداوار کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے نہ صرف کسان بلکہ پوری ملکی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پانی کی دستیابی فصلوں کی نشوونما اور زمین کی زرخیزی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

زیادہ درجۂ حرارت اور پانی کی کمی کی وجہ سے فصلوں کو پانی کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے، جو کہ موجودہ وسائل کے تحت ممکن نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہےجو کہ زرعی شعبے کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنے کے لئے کسانوں کو نئے اور موسمیاتی موافق بیجوں اور زرعی تکنیکوں کو اپنانا ضروری ہے۔

توانائی کے مسائل

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں توانائی کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سردیوں میں اگرچہ بجلی کی مانگ کم ہوتی ہے لیکن سردی کی شدت میں کمی سے بجلی کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے کہ شمسی توانائی، ہوائی توانائی اور پن بجلی کے استعمال کو فروغ دینا ضروری ہے، تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکے۔ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی دستیابی زیادہ ہے، جس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور ماحول کی حفاظت بھی ممکن ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے اور صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لئے مختلف منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے ہیں۔

جن کا مقصد درختوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ماحول کو بہتر بنانا ہے۔ درخت نہ صرف زمین کے درجۂ حرارت کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ ہوا کی کوالٹی کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی آگاہی کے لئے مختلف مہمات بھی چلائی جا رہی ہیں ،تاکہ لوگ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور نقصانات سے آگاہ ہو سکیں۔

قابل تجدید ذرائع کا استعمال

شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی اور بایو ماس جیسے قدرتی ذرائع کا استعمال کرکے ماحول کو بچایا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی کر کے زمین پر موجود کچرے اور آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے، جس سے ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

درختوں کی حفاظت اور شجرکاری

زیادہ سے زیادہ درخت لگانا اور موجودہ درختوں کی حفاظت کرنا موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ایک مؤثر قدم ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں، جس سے فضائی آلودگی میں کمی آتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے، جس کا اثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر نمایاں طور پر پڑ رہا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں سردی کی شدت میں کمی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں، جن میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ایل نینو کے اثرات، فضائی آلودگی اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ 

اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور عوام دونوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے مشترکہ طور پر کام کرنا ہو گا۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائے جو ماحول کے لئے مفید ہوں۔ 

اگر ہم ان اقدامات پر عمل کریں تو ہم نہ صرف اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک محفوظ اور بہتر ماحول فراہم کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید