گفتگو: فاضل جمیلی
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی آج جس اوجِ ثریا پر ہے۔ اس مقام تک اسے پہنچانے میں کسی کی محنتِ شاقہ کا ذکر کیا جائے تو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے اور وہ ہےمحمد احمد شاہ۔
شاہ صاحب نے برسوں پہلے جب اس انجمن ِ ناز میں پہلا قدم رکھا تو ویرانی اس کے درو دیوار پر بال کھولے سو رہی تھی۔ شہر کے گلی کوچوں میں بارود کی بُو بسی تھی یا انسانی خون مہکتا تھا۔ ایسے میں امن کی شمع جلانا اور مسلسل جلائے رکھنا، تیشیہ فرہاد سے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن ’زمانے میں مرے شورِ جنوں نے، قیامت کا سا ہنگامہ مچایا‘کے مصداق محمد احمد شاہ نے ’عالمی اُردو کانفرنس‘ کے نام پر دیے سے دیا جلانے کا جو عمل سترہ سال پہلے شروع کیا تھا، اب وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
کراچی کی پہچان اور شناخت ایک بار پھر علم و ادب، فکر و دانش، تہذیب و ثقافت اور رجائیت و جاذبیت کے حوالے سے چہاردانگ ِ عالم تک پہنچ چکی ہے۔آرٹس کونسل میں اب ’عالمی اردوکانفرنس‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ میوزک فیسٹیول ، یوتھ فیسٹول، تھیٹر فیسٹو ل اور فنونِ لطیفہ سے متعلق دیگر سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی اب محض ایک عمارت کا نام نہیں بلکہ ایک مینارہِ نور ہے جہاں سے امن کے چشمے پھوٹتے ہیں، رقص و موسیقی کی ندیاں بہتی ہیں، شعر و ادب کے پنچھی چہچہاتے ہیں اور مصوری و مجسمہ سازی کے پودوں کی آبیاری ہوتی ہے۔
حال میں ’ورلڈ کلچر فیسٹیول‘ منعقد ہوا ،جس میں چوالیس ملکوں کے تھیٹر گروپوں نے شرکت کی۔ یہ فیسٹیول اڑتیس دن جاری رہا۔ اس کے بعد ’عوامی تھیٹر فیسٹیول‘ ہوا اور پھر ’عالمی اُردو کانفرنس‘، جسے جشنِ کراچی کے نام سے منسوب کیا گیا۔
گویا آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے کراچی اور اہلِ کراچی نے اپنا جشن منایا اور دنیا کو بتایا کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔ یہاں کے رہنے والے آج بھی تہذیب و ثقافت، علم و آگہی اور اپنی اعلیٰ اقدار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اگر کسی کو مضامین نو کے انبار دیکھنے ہوں تو آرٹس کونسل کا رُخ کر سکتا ہے۔اقبال کے شاہین کے عملی مظاہر بھی اسی احاطے میں ملتے ہیں۔
ہم نے دنیا بھر میں پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر کرنے والی ’ون مین آرمی‘ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے صدر محمد احمد شاہ کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو کی، جس میں انہوں نے اپنی اب تک کی کامیابیوں و کامرانیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل کے منصوبوں اورآئیڈیاز کے بارے میں بھی کُھل کر بات کی۔
سوال: پہلی اُردو کانفرنس سے سترھویں عالمی کانفرنس تک کے سفر کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
محمد احمد شاہ: میں اسے ایک پودے سے تناور درخت بننے کے عمل سے تشبیہ دیتا ہوں۔ جب ہم نے اس سفر کا آغاز کیا تو نہ ہمارے پاس اتنے وسائل تھے اور نہ ہی ایسی ٹیم جو منظم انداز میں اتنے بڑے پروگرام منعقد کر سکے،صرف جذبہ تھا اور کچھ کر گزرنے کا وژن۔ پہلی اردو کانفرنس کے وقت شہر کے حالات بھی اتنے سازگار نہیں تھے۔
باہر گولیاں چل رہی تھیں۔ دوستوں نے نے مشورہ دیاکہ کانفرنس منسوخ کر دیتے ہیں لیکن میں ڈٹا رہا۔ شاید یہی ثابت قدمی تھی جس کی وجہ سے آگے چل کر نیکی کی قوتیں ہمارے ساتھ شامل ہوتی گئیں اور کارواں بنتا چلا گیا۔اب تو یہ کانفرنس ہم پاکستان لٹریچر فیسٹیول [پی ایل ایف] کے نام سے لاہور، سکھر، کوئٹہ اور کشمیر تک لے گئے ہیں۔
سوال: پی ایل ایف کا خیال کیسے آیا؟
محمد احمد شاہ: یہ جو آرٹس کونسل ہے ناں،اس کا نام ہی آرٹس کونسل آف پاکستان ہے۔ میرے ذہن میں پہلے سے یہ تصور تھا کہ اس کا دائزہ کراچی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، نہ صرف سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں ہمیں کانفرنسیں کرنی چاہئیں بلکہ پورے پاکستان میں ہونی چاہیں، پورا پاکستان بھی اب ہماری طرف دیکھتا ہے۔
جتنا رسپانس ہمیں ملک کے دیگر علاقوں سے ملا ہے اس نے میرے ایمان کو مزید پختہ کیا ہے کہ جذبہ و جنون ہو توکوئی بھی مشکل آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور اس کا سوفٹ امیج دنیا بھر میں ہم نے اُجاگر کیا ہے۔ اب تو حکومتیں اور دیگر ادارے بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور ہم سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔کئی ملکوں کے سفارتخانے ہمارے ساتھ جُڑ گئے ہیں۔
ہم ہیوسٹن، نیویارک ،لندن اور جرمنی بھی جا رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کی تمام زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ اُردو کانفرنس کے دوران سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی اور بلوچی کے الگ سیشن ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک طرح سے شعر و نغمہ سے وحشت کھانے والی طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔
ہمارے آرٹ، میوزک اور ایکٹنگ اسکول کے بچوں کی رسائی اب دنیا کے دیگر ملکوں تک ہے، جہاں نہ صرف ان کے کام کو سراہا جا رہا ہے بلکہ اس کے مہنگے دام بھی لگ رہے ہیں۔ ہم نے امن کے لیے بھرپور جدوجہد کے ساتھ ساتھ سوشل ایشوز بالخصوص ویمن امپاورمنٹ کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔
سوال: اتنے بڑے پلان بنانا اور پھر انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنا، بہت محنت طلب کام ہے۔ اتنی انرجی کہاں سے آتی ہے؟
محمد احمد شاہ: مزے کی بات یہ ہے کہ میں صرف چار سے پانچ گھنٹے کی نیند لیتا ہوں، باقی سارا وقت نئے آئیڈیاز پر کام کرتا ہوں، کتابیں پڑھتا ہوں۔ اب تو ان آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میرے پاس پوری ایک ٹیم ہےجو اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ ہماری گورننگ باڈی میں ایسے ایسے نابغہ روزگار لوگ شامل ہیں جن کی معاونت، مشاورت اور رہنمائی میں بھٹکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہی لوگ میری انرجی ہیں اور مجھے مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ اور عزم دیتے ہیں۔ ورلڈ کلچر فیسٹیول میں چالیس ملکوں کے تھیٹر گروپ شریک ہوئے۔
اگلے سال اس کا دائرہ مزید وسیع ہونے جا رہا ہے۔ اس میں سو سے زائد ممالک کے تھیٹر گروپ شریک ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک ایسا ’انٹرنیشنل سمٹ‘ بھی کرنے جارہے ہیں جس میں معیشت ، سیاست، ماحولیات اور عالمی امن جیسے موضوعات پر گفتگو ہو گی۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر بات ہو گی کہ آنے والے وقتوں میں یہ کتنی فائدہ مند اور کتنی نقصان دہ ثابت ہوگی۔
سوال: اتنے بڑے پروجیکٹس کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟
محمد احمد شاہ: سندھ حکومت ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہے، خاص طور پر غیر ملکی مندوبین کی سیکورٹی کے حوالے سے صوبائی حکومت بھرپور تعاون کرتی ہے۔ اب تو وفاقی حکومت کی بھی خواہش ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرے۔ ہم نے پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے میں جو حصہ ڈالا ہے وہ حکومتی ادارے بھی نہیں کر سکے۔
میرا ایمان ہے کہ اگر یہ کام آرٹس کونسل آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے کیا جا سکتا ہے تو ملک کیوں نہیں کر سکتا، بس آپ کی ڈائریکشن ٹھیک ہونی چاہیے۔ منزل خود بہ خود آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ امریکی سفیر نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا ہے کہ وہ آرٹس کونسل کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔کئی ایک یورپی ممالک کے سفارت کار بھی آرٹس کونسل کو فنڈنگ کرنے کے خواہش مند ہیں۔
سوال: حکومت پاکستان نے آپ کو ان خدمات کے صلے میں کئی تمغوں سے نوازا کتنی اطمینان بخش ہیں یہ اچیومنٹس؟
محمد احمدشاہ: جی ہاں، مجھے ستارہ ِ امتیاز اور ہلال ِ امتیاز کا اعزاز مل چکا ہے۔ لیکن حال ہی میں کراچی پریس کلب نے مجھے لائف ممبر شپ دے کر جو اعزاز بخشا ہے اسے میں اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔جہاں تک تمغوں کی بات ہے تو میرے لیے بزرگوں کی محبت ہی سب سے بڑا تمغہ ہے۔
کون ہے ایسا خوش نصیب جس کے کام کومشتاق احمد یوسفی، جمیل الدین عالی، انتظار حسین، عبداللہ حسین، شمیم حنفی، فاطمہ ثریا بجیا، زہرہ نگاہ، انور مقصود، افتخار عارف اور کشور ناہید وغیرہ نے سراہا ہو۔ اپنے عہد کے ان روشن دماغوں کی تھپکی ہی میرا سب سے بڑا اعزاز ہے۔
سوال: کشور ناہیدنے اپنے ایک کالم میں آپ کو ’رستم ِ ادب‘ کا خطاب دیا تھا جبکہ عطاالحق قاسمی نے آپ کو وزیراعظم بنانے کی تجویز دی۔ کیسی لگتی ہے اتنی تعریف؟
محمد احمد شاہ: میں ادیبوں، شاعروں کی جوتیاں سیدھی کر کر کے اس مقام تک پہنچا ہوں۔ تعریف اچھی تو لگتی ہے لیکن میرا دماغ خراب نہیں کرتی۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں بلکہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ مجھے سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے سیاسی جماعت میں شمولیت کی دعوت بھی دی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ میں ایک وزیر بن کر اپنے کام کے دائرے کو محدود نہیں کرنا چاہتا۔
کووڈ کے دنوں میں ہم نے جس طرح ویکسینیشن سینٹر قائم کر کے لوگوں کی خدمت کی وہ کوئی حکومت یا وزارت بھی نہیں کر سکی۔ اب ہم ’سندھ تھرو سینچریز‘ کے عنوان سے ایک بڑی کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگلے سال ’پوئٹری فیسٹیول‘ کریں گے جس میں پورے ملک سے نوجوان شعرا کو بلائیں گے۔
ان کی مینٹورشپ کریں گے۔ پاکستان کی مختلف زبانوں میں شاعری کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی میں شاعری کرنے والوں کو بھی مدعو کریں گے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول ہو گا جس میں نوخیز شاعروں کی گرومنگ کا بندوبست کیا جائے گا۔
سوال: بہت سے لوگ آپ کی ان کامیابیوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن کچھ حسد بھی کرتے ہیں اور آپ کی کاوشوں کو ’ون مین شو‘ قرار دیتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
محمد احمد شاہ: نہیں یہ ون مین شو بالکل نہیں ہے۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میرے پاس پوری ٹیم ہے جو آرٹس کونسل کا انتظام و انصرام چلاتی ہے۔ میں کبھی بھی اختیارات کے ارتکاز کے حق میں نہیں رہا۔ میرے پاس جتنے لوگوں کی ٹیم ہے وہ یہیں سے انٹرن شپ کرنے کے بعد اب اپنے اپنے شعبوں کے سربراہ ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ہمیں ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نئے زمانے کے مطابق آرٹس کونسل کی اپ لفٹنگ اور اپ گریڈنگ کے حوالے سے نئے آئیڈیاز پر کام کر سکیں۔ لوگ تو صرف باتیں کرتے رہے لیکن ہم عملی طور پر آرٹس کونسل آف پاکستان کو یونیورسٹی بنانے جا رہے ہیں جس کی ایفلی ایشن دنیا کی نامور یونیورسٹیوں کے ساتھ ہو گی۔
سوال: اتنی ساری مصروفیت میں ’ورک لائف بیلنس‘ کیسے قائم رکھتے ہیں؟
محمد احمد شاہ: فیض صاھب نے کہا تھا، کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا۔لیکن میں نے عشق اور کام دونوں کو ادھورا نہیں چھوڑا۔ میری شریکِ حیات چاند گل میرا عشق ہے ،وہ میرے ہر کام میں میرے ساتھ ہے۔ اب تو آرٹس کونسل کے کاموں میں بھی میرا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
کچھ فرصت ملے تو ہم گھومنے پھرنے بھی نکل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میری غذا اور صحت کا بھی بہت خیال رکھتی ہیں۔ وہ ناصح نہیں بلکہ میری چارہ ساز اور غم گسار ہیں۔ ان کی موجودگی ہی میرا ’ورک لائف بیلنس ‘ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بھی بہت مددگار ہیں۔