پروفیسر خالد اقبال جیلانی
عظیم المرتبت صحابی رسولؐ، پیکرصدق و وفا،جانشین پیمبر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام و مرتبے کی حامل ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے بچپن کے رفیق تھے ، حضور ﷺ کی نبوت پر آزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے والے آپ ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی، اُس کی طرف سے کچھ نہ کچھ جھجک ضرور محسوس ہوئی ،مگر ابو بکرؓ ڈرے، نہ جھجکے‘‘ ۔
اسلام لانے سے پہلے ہی آپ عرب جاہلیت کے معاشرے میں حُسن اخلاق، دیانت و امانت ، سیرت و کردار اور خاندانی وجاہت میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دولت مند اور صاحب ثروت تاجر بھی تھے ، اپنی دولت سے ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرتے اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتے ۔ آپ کا ایک اعزاز یہ بھی ہےکہ دور جاہلیت میں خوں بہا کا مال آپ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا۔ آپ علم الانساب کے بھی عالم تھے۔
ایمان لانے کے بعد قوتِ ایمانی کا یہ حال تھا کہ کسی صورت میں کمزوری کا شائبہ تک کبھی پیدا نہیں ہوا۔ معراج کی صبح جب رسول اللہ ﷺ نے بارگاہ ِ خداوندی میں حاضری کے واقعات بیان کئے تو کافروں نے مذاق اڑایا ،کسی نے آپؓ سے کہا ! تمہارے دوست جو اللہ کی طرف سے وحی اترنے کا دعویٰ کرتے ہیں ،اب اللہ سے ملاقات بھی کر آئے ہیں۔ کیا تم اُن کی اس عجیب بات کو مان لوگے؟ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا ۔’’ کیوں نہیں ! میں تو اس سے زیادہ عجیب باتوں کو مانتا ہوں ‘‘۔ اسی شانِ ایمانی پر دربار نبوت سے ’’صدیق ‘‘ کا لقب عطا ہوا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ خود جس خلوص و محبت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر اس کے بعد عمر بھر آپ نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا ، وہ بھی اپنی مثال آپ اور آپ کی صد یقیت پر شاہد ہے۔ روزانہ صبح و شام رسول اللہ ﷺ آپ سے اپنے مشن غلبۂ دینِ حق کے متعلق مشورہ لیتے اور آپ ہی کے تعلق اور اثرورسوخ سے حضرت عثمان بنِ عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبداللہ ، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن وقاص رضوان اللہ عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ مشرف بہ اسلام ہو کر رسول اللہ ﷺ کی جماعت کے طاقتور ترین رکن بنے ۔ اس کے علاوہ متعد د غلاموں کو آپ ؓنے خرید کر کفارکے پنچۂ ظلم و استبداد سے آزادی دلائی۔ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ دونوں مہمات میں آپ ؓ نے اللہ کی راہ میں بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔
ہجرتِ مدینہ رسول اللہﷺ اورسیدنا صدیق اکبرؓ کی ایک بے مثال اور تاریخی رفاقت کا نمونہ ہے، جب رسول اللہ ﷺ اپنے رفیق سفر و حضر سیدنا صدیق اکبرؓ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اذنِ ہجرت کی اطلاع دیتے ہیں ،صدیق اکبر ؓ عرض کرتے ہیں کیا یا رسول اللہﷺ مجھے بھی ساتھ چلنے کی اجازت ہے؟ ’’جواب ملتا ہے ،ہاں تیار ہو جاؤ ‘‘۔اس تاریخی سفر کا تمام انتظام صدیق اکبر ؓ کے گھر سے ہوا۔
جس کی تفصیل سے سب واقف ہیں۔ پھر وہ خطر ناک ترین لمحات آئے کہ جب دشمن آپ ﷺ کی تلاش کرتے کرتے عین غارثور کے منہ پر آگئے، حضرتِ صدیق اکبر ؓ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی فکر میں سخت پریشان ہوئےتو رسول اللہ ﷺ نے آپ ؓ کو تسلی کے لئے وہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جو قیامت تک کے لئے اللہ نے قرآن میں محفوظ کر دیئے کہ ’’ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ واقعہ ہجرت نبوی غلبۂ دین حق کی جدوجہد کا اہم ترین مرحلہ ہےاور تاریخ اسلام میں فتح و صداقت اور غلبۂ حق کے باب کا آغاز ہجرت ہی سے ہوتا ہے اور صدیق اکبر ؓ ہجرت کی دو رکنی ٹیم کے اہم رکن تھے۔
واقعہ ہجرت ہی ریاستِ مدینہ کے قیام کی بنیاد بنا اور مدینہ میں اسلام کی حکمرانی اور اللہ کی حاکمیت قائم ہونے کے بعد جب کفار مکہ سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور غلبۂ دین حق کے لئے مسلح جدوجہد یعنی غزوات کا آغاز ہوا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ شامل ، شانہ بشانہ شریک رہے اور اپنی بہادری و جاں نثاری کا پورا پورا ثبوت دیا۔اس طرح رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رفاقت کا پورا حق ادا کیا۔ پھر غزوۂ تبوک میں تن من دھن کی قربانی کی ایک لازوال مثال بن گئے۔
اس عظیم جذبۂ ایمانی اور بے مثال محبت کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا صدیق اکبرؓ کی شان میں صرف ایک فرمان ہی کافی ہے کہ آپ ﷺ نے مدحتِ صدیقیت کرتے ہوئے فرمایا۔’’ دنیا میں مجھ پر جس کسی نے جو بھی احسان کیا ، میں نے اسے اس کا بدلہ اس دنیا میں دے دیا ،ماسوائے ابو بکر ؓ کے کہ اُن کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کا بدلہ میں حشر کے دن اللہ سے دلواؤں گا۔ ‘‘
آپ کا عہدخلافت مختصر ہونے کے باوجود تاریخ ساز رہا۔ آپ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلا حکم رومیوں سے انتقام لینے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا تیار کردہ لشکر حضرت اسامہؓ کی سربراہی میں روانہ کیا جنہیں رسول اللہ ﷺ ہی نے امیر لشکر مقرر کیا تھا اور اس کی روانگی مؤخر کرنے کے مشورے کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی امیر لشکر کی تبدیلی قبول کی۔ آپ نے مرتدین اور منکرین زکوٰۃ کے خلاف تاریخ ساز جہاد کیا اور ارتداد کے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا جس سے فتوحات اسلامی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
فتنۂ ارتدادکے خاتمے کے حوالے سے آپ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کا بھی قلع قمع کیا۔ اس عزم صدیقی ؓ کا حکیمانہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالک بن نویرہ، مسلیمہ کذّاب، اسود عنسی قتل ہوئے اور دین حق کا غلبہ واضح ہو گیا۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسلامی ریاست کی سرحدوں میں وسعت کے لئے مختلف اطراف مہمات روانہ کیں، مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو اسلام کی حاکمیت قبول کرنے کے لئے خطوط لکھے۔
اس کے نتیجے میں اسلامی فتوحات کا آغاز ہوا۔آپ کے بے شمار فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ جہاں ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے خسر جیسے رشتے کے حامل ہیں تو دوسری طرف یارِ غار و رفیق ِمزار بھی ہیں۔