• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم کی جانب سے فلسطینیوں کی غیر متزلزل حمایت

فلسطین کے بارے میں اینگلو امریکن کمیٹی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ بانی پاکستان قائداعظم نے اس رپورٹ کے بارے میں ایک سخت بیان دیا تھا، جسے پڑھ کر مفتی اعظم فلسطین جو نظربند تھے، انہوں نےقائداعظم کے نام ایک تاریخی مکتوب لکھا۔ ذیل میں قائد کا بیان اور مفتی اعظم فلسطین کا مکتوب نذرِ قارئین۔

………٭٭٭……٭٭٭………

1946ء کے نومبر میں قائد اعظم کراچی میں مقیم تھے اور یہیں سے لندن کانفرنس کیلئے روانہ ہوئے لیاقت علی خان ان کے ساتھ تھے۔ یہ کانفرنس وزارتی مشن کے پلان کی صحیح تعبیروتشریح کی وضاحت کیلئے ہورہی تھی۔ مسٹر گاندھی ہر بات کو موڑنے توڑنے کے عادی تھے انہوں نے پلان کی ایک فدعہ کو اسی طرح مروڑا تھا اور کانفریس اس من مانی پر بضد تھی، کانگریس کی طرف سے پنڈت جواہرلال گئے تھے اور سردار بلدیو سنگھ ان کے ساتھ تھے۔ 

وائسرائے لارڈویول بھی لندن گئے تھے۔ وہاں قانون کے ماہرین کی نظر میں مرکز سے گروپ کی علیحدگی کا مسلم لیگی موقف تسلیم کیا گیا اور وہی تعبیر وتشریح قانوناً درست قرار پائی جو قائد اعظم نے پیش کی تھی۔

لندن سے واپسی پر قائد اعظم اور قائد ملت کو مفتی فلسطین سید محمد امین الحسنین نے مصر کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی، مصر کی قیادت ان دنوں کانگریس کے پروپیگنڈے سے متاثر اور اسکی ہم نوا تھی۔ مفتی اعظم فلسطین نے قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کا زبردست استقبال کیا جہاں عظیم الشان استقبالیے میں قائد اعظم کی تقریر اور مفتی اعظم کی تشریح سے پاکستان کا اصل مفہوم ان پر واضح ہوا اور تحریک کی مخالفت کا جو جال کانگریس نے پھیلایا تھا اس کی حقیقت سب پر کھل گئی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا۔

’’ مصر کی آزادی صحیح معنوں میں آزادی اسی وقت ہوگی جب پاکستان قائم ہوجائیگا، اور ہم لوگ(مسلمانان برعظیم اور مصری) حقیقی طور پر آزاد ہوں گے، ورنہ ہندوامپیریلسٹ راج کا خطرہ سامنے آجائیگا جس کے سینگ سارے شرق اوسط تک پہنچے ہوں گے‘‘۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ اگر انڈیا پر حکمرانی امپیریلسٹ پاور کی ہوگی تو اس کا خطرہ مستقبل میں اتنا ہی بڑا ہوگا جتنا کہ برٹش امپیریلزم کا ماضی میں تھا۔ 

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ سارا شرق اوسط کڑاہی سے نکل کے سیدھے چولہے (آگ) میں جا پڑے گا مگر شرق اوسط کے ممالک اگر آزاد ہونا چاہتے ہیں تو خود اپنی حکمرانی کے خواہاں ہوں اور کسی حلقہ خود ماثر کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے‘‘۔

(مارنگ ہیرالڈ بمبئی، پاکستان نمبر 1947ء)

فلسطین کے بارے میں جب اینگلو امریکن کمیٹی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی اس پر قائداعظم نے یکم مئی 1946ء کو ایک سخت بیان دیا تھا جو یہ تھا۔

اینگلو امریکن کمیٹی نے فلسطین پر جو رپورٹ شائع کی ہے اور جو آج اخباروں میں شائع ہوئی ہے وہ میں نے دیکھی، میں اس پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان وعدوں کی سراسر خلاف ورزی اور حد درجہ بد عہدی ہے جو عربوں سے کئے گئے تھے۔ 

اس کو دیکھ کر مجھے بڑا صدمہ پہنچا ہے یہ شرانگیز سفارشات جن کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کوعرب اور مسلمانان عالم ہر گز قبول نہیں کریں‘‘۔ یہ بیان پڑھ کر مفتی اعظم فلسطین جو پیرس کے مضافات میں اتحادیوں یعنی امریکہ روس، برطانیہ اور فرانس کی گرفت میں آگئے تھے اور نظر بندی میں تھے انہوں نے قائد اعظم کے نام ایک تاریخی مکتوب عربی زبان میں 5 مئی 1946ء کو لکھا تھا جو درج ذیل ہے۔

پیرس 5 مئی 1946 ء حضرۃ الاخ المسلم و الزعیم الکبیر السید محمد علی جناح حفظ اللہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،

میں نے آپ کا وہ بیان پڑھوا کے سنا جس میں آپ نے فلسطین کے بارے میں اینگلو امریکن انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر تبصرہ فرمایا ہے، میں تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا کہ از راہ کرم آپ اپنی جدوجہد کو اور تیز کر دیجئے کہ آپ کے مسلم برادران فلسطین اس ظلم عظیم سے کسی طرح نجات پائیں جس کا وہ شکار ہیں، وہ شدید مصائب کے عذاب میں مبتلا ہیں جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔ 

آج اہل فلسطین دوراہے پر کھڑے ہیں اور موت و حیات کے درمیان معلق ہیں، مزید برآں آپ کو علم ہے کہ مسلمانان فلسطین تنہا ان مصائب پر قابو نہیں پاسکتے اور نہ ان جارحین و غاصبیں کی جارحانہ کارروائیوں پر غالب آسکتے ہیں جن میں یہودیوں ، انگریزوں اور امریکیوں نے اشتراک کر رکھا ہے، تاوقتیکہ تمام مسلمان متحد ہو کر چٹان کی طرح نہ اٹھ کھڑے ہوں اور فلسطین کو بچانے کیلئے سب ہم خیال ہم عمل ہو کر آگے نہ بڑھیں ورنہ فلسطین قطعی طور پر غاصبوں کا لقمہ تر ہو جائے گا (خدانخواستہ) اور اسلام کا مقدس نام فلسطین سے یکسر مٹ جائیگا اس کے علاوہ ہمارےمقدس مقامات بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے جن میں سب سے اول اور اہم مسجد اقصیٰ ہے جس پر یہودیوں کا فرضی دعویٰ یہ ہے وہ ان کا ہیکل قدیم ہے۔

آپ نے اپنے برادران فلسطین کےحقوق و مفادات کی جس طرح مسلسل اورغیر متزلزل انداز سے حمایت کی ہے اس پر ہم لوگوں کی نظر بڑے فخر وافتخار کے ساتھ اٹھی ہوئی ہے۔ آپ کی اس تائید و حمایت کو ہم سب لوگ اپنی عظیم الشان قوت تصور کرتے ہیں اور اس کا یقین رکھنے میں بھی اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ آپ کی یہ تاریخی حمایت غیر متزلزل ہی نہیں بلکہ اپنی غصب کر وہ سرزمین کو واپس لینے کے عادلانہ حق اوراس کی کامیابی کی راہ میں مشعل ہدایت بھی ثابت ہوگی۔

اللہ تعالی آپ کو عمر دراز عطا فرمائے اور اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کیلئے سلامت رکھے اور آپ کو ان کی قوت و استحکام کا سرچشمہ بنائے۔ میری جانب سے بے انتہا اکرام و احترام کے جذبات قبول فرمائیے۔ ’’مفتی فلسطین‘‘

مفتی فلسطین نے پس دیوار زنداں یہ خط اسوقت لکھا تھا جب یہودی اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام کے اس فرزند جلیل کے ساتھ جنگی قیدیوں کا سا سلوک کر کے اور’’ نیورمبرگ ٹرائل‘‘ کے پھندے میں لاکر پھانسی دلوادی جائے۔ 

سارے اتحادیوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ مفتی اعظم کو پھانسی کے تختے پرلٹکا دیا جائے۔ زندگی اور موت کے انہی تلخ لمحوں کے دوران مفتی اعظم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ مقبول، فلسطین اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے بعد قائداعظم یاد آئے۔ اس سے بھی قائد اعظم کی اہمیت کا اندازہ ہوگا کہ وہ عالم اسلام کیلئے کتنی اہمیت کے حامل تھے۔ یہی نہیں بلکہ مفتی اعظم کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

اس مکتوب کے کچھ ہی عرصہ بعد مفتی اعظم اس قید سے ڈرامائی طور پر فرار ہوگئے۔ اس کا پس منظر ڈاکٹر معروف الدوالیبی نے جو مفتی اعظم کے بعد موتمر عالم اسلامی کے صدر اور سعودی عرب کے فرمانروا کے مشیر ہوئے، مجھے اس وقت بتایا تھا جب میں نے اس تاریخی مکتوب کا عکس ان کی خدمت میں پیش کیا تھا ڈاکٹر معروف الدوالیبی اس زمانے میں جب مفتی اعظم نظر بندی میں تھے، پیرس میں موجود تھے۔ 

مفتی اعظم کے اس ڈرمائی فرارمیں ڈاکٹر معروف الدوالیبی کابھی ہاتھ تھا بلکہ انہی کا پاسپورٹ لیکر مفتی صاحب نے ہوائی جہاز سے سفر کیا تھا اوروہاں سے ایتھنز سے قاہرہ پہنچ گئے تھے۔ قاہرہ پہنچ کر انہوں نے جہاں اور اہم خدمات انجام دیں وہاں تحریک پاکستان کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشیش بھی کیں اورعرب دنیا کو برطانیہ اور کانگریس سے نکالا۔ مخالفانہ پروپیگنڈے کے اثرات ذہنوں سے دور ہوئے۔