• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024 ءشیطان کی گود میں لیروں لیر چگا لئے بھاگا جا رہا تھا۔ میں بھی تو شیطان کی خالہ ہوں گریبان پکڑ کر سامنے لا بٹھایا۔ ذرا سنو تو سہی تم نے کیا کیا داغ لگائے ہیں جن کو چھپا کے بھاگ رہے ہو۔ شروع سال ہی سے اغوا، قتل، سزائیں، دھرنے، انسانی اسمگلنگ کبھی یونان تو کوئی اور خواب اور نوکریاں دلانے کیلئے، مائوں کے زیور اور باپ کی بھینسیں اونے پونے فروخت کر کے مہینوں کشتیوں میں بھوکے پیاسے 14سال سے 30برس کے بیکار اور ان پڑھ جوانوں کو ڈالر کمانے کا جھانسہ دیکر، مچھلیوں کیساتھ ڈوبنے کو چھوڑ کر۔ گھروں میں آیتِ کریمہ کے ختم اور مائوں کے آنسوئوں سے بھیگے دوپٹوں کی پروا بھی نہ کی، جاتے جاتے سب کی دعائیں لینا بھی بھول گئے۔

اے جاتے ہوئے منحوس سال تو نے تو ہزاروں بچے، سرحدوں پر دہشت گردوں کے ہاتھوں، کبھی اغوا کبھی قتل ہوئے دیکھے ہیں۔ بتا9مئی 2023 کو شہیدوں کے مزاروں اور یادگاروں کو آگ کے شعلوں میں کس کے کہنے پر راکھ کیا۔ بتا تو سہی کس نے کس کو استعمال کیا اور اب کون کس کو استعمال کر رہا ہے۔ تو نے تو ججوں کی تکریم کو بھی مٹی میں ملا دیا۔ تو نے تو قریشی جیسے بزرگ سیاستدان کو ہتھکڑیاں پہناتے ہوئے ان کے سفید بالوں کی لاج بھی نہ رکھی۔ منٹو کے نیا قانون کے کرداروں کو بھی سیاہ پوش کردیا۔ 10سال سے پشاور میں ہمارے بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو اس طرح تلاش کر رہے ہیں، جیسے بینظیر کے قاتلوں کو، جیسے ڈاکوئوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے اور کچے کے علاقوں میں، قتل کرنے کے اتنے المیے پڑھائے کہ بیان کرتے ہوئے میرا قلم بار بار پوچھ رہا ہے کہ سردیوں میں ٹھنڈی اور برف زدہ ہوائیں، مہنگی لکڑی کی انگیٹھی بھی میسر نہیں، ہماری خشک جلد کو کھرنڈ بناتے موسم میں آپ بار بار اشتہار میں دکھا رہے ہیں کہ بجلی سستی کر دی گئی۔ ہنسی بھی نہیں آتی یہ پڑھ کر کہ جنوری، فروری کیلئے بجلی سستی ہو گئی ہے۔ بقول غالب ’’باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا‘‘

پارا چنار اور ضلع کرم کے علاقوں میں دو ماہ سے رستے بند کروائے ہوئے ہیں۔ بچے، عورتیں بھو کے اور سردی سے مر رہے ہیں۔ شیعہ، سنی کا کبھی وہاں جھگڑ انہیں ہوا تھا۔ اب تو جرگے کو بھی نہیں مانتے، بلوچستان میں بھی دس دس لوگوں کو بسوں سے اتار کر گولیاں کیوں مرواتا رہا ہے اے نحوست زدہ سال، اب تو جمہوریت کے زمانے میں فوجی عدالتوں کے ذریعے، ڈیڑھ سال کے سانحے کے بعد سزائیں دلوا کر بھاگ رہا ہے۔ غزہ میں پوری فلسطینی بستیوں کو خاک و خوں میں لپیٹ کر بھی شیطان نیتن یاہو گرفتاری سے بچنے کو اور بھی اسپتالوںتک کوڈرون پھینک کر فنا کروا رہا ہے۔

76سال میں پیتل کو سونا بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اب تک 15ملکوں کے وفود یہ دیکھنے آئے ہیں کہ تجارت کے کتنے آثار ہیں۔ محمود بھٹی پیرس سے آکر سرمایہ لگا کر ڈوبتے دیکھ کر اوربجلی گیس کی نایابی پر واپس چلا گیا تھا۔ اب واپس بلا کر اعزاز کا چورن کھلایا جارہا ہے، لندن میں تحریک کے لوگ جب نواز شریف کے آنے پر مظاہرہ کررہے تھے توپال فشر نے کہا تھا یہ پاکستان کی پارلیمنٹ نہیں آپ لوگ اپنے گھروں کو جائیں۔

امریکی رچرڈ گونیل کو ٹرمپ نے خصوصی ایلچی 20جنوری سے لگایا ہے، مگر وہ ابھی سے پاکستان کو تڑیاں دے رہا ہے۔ دھمکی ہے کہ ایٹمی راز کوبس راز ہی رہنے دو، ورنہ، کیا اُنہیں انڈیا اور اسرائیل نظر نہیں آتے۔ کیا انڈیا کو نہیں کہا جا سکتا کہ اپنے سفیر کو اسلام آباد بھیجو، یہ دس سال سے مسلمان دشمنی بند کرو اور بارڈر، ایران اور افغانستان کو بھی سرحدوں پر باقاعدہ تجارت کرنے اور اسمگلنگ بند کرنے کیلئے وہاں کے عوام مظاہرے کریں جیسے اس وقت جرمنی میں 50سالہ ڈاکٹر، جو عربی ہیں، کے وحشیانہ گولیاں چلانے پہ ساری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اب تو ایران میں حجاب بل کی سختیاں نرم کرنے کی آوازیں اور پوپ تک نے غزہ اور دیگر ممالک میں بچوں اور عورتوں کیلئے انسانی حقوق کی بات کی ہے۔

افغان عبوری حکومت کی طرف سے لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں کو گھر بیٹھنے کا آرڈر کیوں دیا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر واویلا مچ رہا ہے۔ تین سال سے لڑکیاں یا تو دوسرے ملکوں میں فرار ہورہی ہیں یا پھر گھروں میں چھپ کر، جان ہتھیلی پر رکھ کر کچھ خواتین تعلیم کو نماز کی طرح پڑھا رہی ہیں۔

عالمی سطح پر جو بچوں کیلئے خصوصی احتیاطیں کی جارہی ہیں بعدازاں خرابیٔ بسیار ٹک ٹاک اور بچوں کے ہاتھ میں 14سال کی عمرتک موبائل نہ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسکے علاوہ انسانی حقوق کے تمام دنیا کے کمیشن جمہوری ملکوں میں فوجی عدالتوں کے وجود اور انکے ذریعے سزائوں پر متفکر ہیں۔ غزہ میں بہت سے اسرائیلی فوجیوں نے لڑنے سے انکار کیا ہے اسی طرح یوکرین والے نے بھی دوسرے ملکوں سے فوج منگوائی ہے۔ ان سب کوغلام فرید کا کہا یاد کرادوں کہ وقت دا بلی ہر کوئی بندا۔ مگر شیطان کو کہوں گی کہ نئے سال میں اڈیالہ جیل اور دیگر جیلوں میں مقید لوگوں کے سر سے دور ہو جائے۔ اب کوئی سقراط نہیں ہے کم از کم پاکستان میں، وقت کو ساکت کرنے کی اب کوئی نئی کوشش نہ کی جائے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہر حکومت کیلئے آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں ۔

اس سال توجہ ہٹانے کیلئے مقامی سرکار کے کہنے پر بہت میلے ہوئے ہیں۔ خود بخود مقامی تہذیب و ثقافت کو آگے آنے دیا جائے۔ سول سوسائٹی ایکٹ میں مولوی بھی آجائیں اور نفسیاتی طور پر ذہنوں میں ڈر نہیں محبت کا سودا کریں، بندوق اور گولی کی نمائش کے علاوہ دیہات میں شادیوں کے موقع پر ڈالروں کی بارش، ختم کرنےکیلئے ۔جب تک آپ وزیر اعظم ہیں نئے سال کے مصنوعی وعدے براہ کرم مت کریں۔پاراچنار کے بچوں کو دودھ، دوائیں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بھجوائیں۔ فیصل ایدھی کی مدد کیلئے آگے بڑھئے۔

تازہ ترین