ڈیڑھ دو برس پہلے میں نے جپہ برادران سے متعلق لکھا تھا کہ وہ ساتوں بھائی کس طرح راوین بنے، ان میں سے پانچ بھائی سول سروسز میں ہیں، ایک بھائی آرمی میں اور ایک بھائی بیرونی دنیا میں ہے۔ جپہ برادران سے متعلق آپ پڑھ چکے ہیں لیکن آج کچھ اور لوگوں کے حوالے سے بات کروں گا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے ساتھ پڑھنے والے برادرم شاہد صدیق ورک کے دو بیٹوں نے اسی سال سی ایس ایس کیا ہے، خیر سے دونوں راوین ہیں، حارث علی ورک، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ کیپٹن عبد الرحیم ورک، پولیس سروس جوائن کر چکے ہیں، جس طرح شاہد صدیق ورک ملنسار ہیں، بالکل اسی طرح ان کے دونوں صاحبزادے بھی نہ صرف ملنسار ہیں بلکہ پرانی روایات کے بھی قائل ہیں۔ ابرار الحق اپنے گیتوں میں 36 چک کا بہت ذکر کرتے ہیں، دراصل یہ سرگودھا کا چک نمبر 36 جنوبی ہے، اس گاؤں سے غلام رسول چیمہ کبڈی کے کھلاڑی رہے، چیمہ صاحب کے تینوں پوتے گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھے، پہلے نوخیز رسول چیمہ نے داخلہ لیا، لاہور بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی کی ڈبیٹنگ سوسائٹی کے صدر رہے پھر سول سروس جوائن کر لی، آج کل میانوالی ڈسٹرکٹ میں پراسیکیوٹر ہیں، دوسرے بھائی ساحل رسول چیمہ نے بھی گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا پھر مقابلے کا امتحان پاس کیا، آج کل کلر کہار میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں، ان کی پنجاب کے لیےخدمت ہے کہ انہوں نے پورے پنجاب میں سب سے زیادہ ریوینیو کلر کہار سے اکٹھا کیا اور پنجاب کے اسسٹنٹ کمشنرز میں سے پہلے نمبر پر آئے، چونکہ یہ دونوں سول سروس میں ہیں، اس لئے انہیں گھر سے نصیحت کی گئی ہے کہ کرپشن کے نزدیک بھی نہیں جانا بلکہ دیانتداری کو شیوہ بنا کے رکھنا ہے۔ تیسرے بھائی مسلم رسول چیمہ ہیں، انہوں نے بھی گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا، وہاں ایف اے میں آئے اور ایم اے اردو کر کے نکلے، آج کل وکالت ان کا پیشہ ہے، اخبارات میں مضمون بھی لکھتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں ساہی برادران کی، یہ تینوں بھائی گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں، ڈاکٹر شفقت چوہدری مادر علمی میں ڈین رہے پھر لاہور بورڈ کے چیئرمین رہے، دوسرے بھائی نصرت ساہی، جنرل راحیل شریف کے کلاس میٹ تھے، یہ کالج کے بیسٹ ایتھلیٹ تو تھے ہی مگر پاکستان کے چیمپئن بنے اور کالج ہی کے زمانے میں اولمپک کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، گورنمنٹ کالج لاہور کی 160 سالہ تاریخ میں یہ واحد ایتھلیٹ تھے جو زمانہ طالبعلمی میں اولمپک مقابلوں تک پہنچے، تیسرے بھائی مظہر ساہی گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف سے بیسٹ ایتھلیٹ کے طور پر پاکستان کے چیمپئن بنے اور بعد ازاں انہیں بھی اولمپک کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آج تذکرے میں پنجاب کے تین خاندانوں کے چشم و چراغ آئے ہیں، میں پنجاب کے دیہات کے سادہ اور قابل بچوں کو جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی کا احساس بہار کی طرح ہوتا ہے، اس لئے کہ کسانوں کے بچے مٹی سے اپنا رشتہ فراموش نہیں کرتے بلکہ اپنی دھرتی کی خدمت کرنا اپنا شیوہ بناتے ہیں، دیہاتی بچوں کے سادہ والدین انہیں سادگی، دیانتداری، فرض شناسی اور ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ روایات سکھاتے ہیں۔ جس شخص کا بھی تعلق مٹی سے جڑا ہو گا وہ محبت کے راستوں پہ چراغ ضرور جلائے گا، اس کی کوشش ہو گی کہ روشن چراغوں میں خوشبوؤں کا نگر آباد رہے، اس کے دل میں یہ خواہش مچلتی رہتی ہے، میرا وطن ترقی کرے، میری دھرتی آگے جائے، وہ تیز ترین آندھیوں میں بھی دھرتی سے محبت کرنے والے دوسرے چراغوں کو بجھنے سے بچاتا ہے، مشکل وقت ہے، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کا سیلاب ہے۔ دعا کرو کہ یہ چراغ جلتے رہیں، بہار کی آمد تک ان چراغوں کا جلنا بہت ضروری ہے۔ آخر میں غزالہ حبیب کے اشعار حسب حال ہیں۔
پیڑ پودوں کو بھی ضد ہے کہ کھلیں گے نہیں پھول
خوشبوئیں باغباں عجلت میں نہیں آئیں گی
آپ انصاف مہیا نہیں کرتے جب تک
رونقیں بزم عدالت میں نہیں آئیں گی