• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 دسمبر2007ءکو آج ٹھیک سترہ برس گزر گئے۔ اس شام راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آج کے اخبارات میں ان 60افراد کو فوجی عدالتوں سے قید کی سزائوں کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں 9مئی 2023ءکو فوجی تنصیبات پر حملوں کا مجرم پایا گیا۔ وقت کا جبر ہے کہ 2015ءمیں 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونیوالی فوجی عدالتیں 6جنوری 2017ءکو ختم ہونا تھیں۔23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کو 6جنوری 2019ءتک توسیع دی گئی تھی۔ مقررہ مدت پوری ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت میں انہی عدالتوں کے ذریعے متعدد افراد کو سزائے موت اور طویل مدتی سزائیں سنائی گئیں۔ تب تحریک انصاف خاموش رہی۔ اب اس جماعت کا مؤقف ہے کہ عام شہریوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ یہ سزائیں براہ راست پیغام ہیں کہ حکومت اور تحریک انصاف میں شروع ہونے والے مذاکرات میں ’جوڈیشل کمیشن‘ کا مطالبہ بے معنی ہو گیا ہے۔ بیرسٹر گوہر خان کافوجی حکام سے اپیل کا اعلان دراصل فوجی عدالتوں میں مقدمات تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے دیس کی روایت ہے کہ ملکی مفاد کے خودساختہ ٹھیکیدار مقتدر ہوائوں کا رخ دیکھ کر اپنی سیاسی لغت مرتب کرتے ہیں۔ میلان کنڈیرا نے ہجوم کے اس منافقانہ رویے کو ’گرینڈ مارچ‘ کی ترکیب بخشی ہے۔ یہ ہمارا گرینڈ مارچ ہی تھا کہ ہم نے مسلم اقلیت کے لیے آئینی تحفظات کی سیاسی جدوجہد کو ’دو قومی نظریے‘ کا نام دے کر اعلان کیا کہ ہندو اور مسلم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو جمہوری وفاق کی بجائے مضبوط مرکز کی ضرورت ہے۔ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کے ’اسلام‘ پر سوالیہ نشان اٹھائے۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی غرض سے بلائی گئی اسلامی کانفرنس کو مسلم امہ کا بلاک قرار دیا۔ شیر علی پٹودی کی بخشی ہوئی ترکیب ’نظریہ پاکستان‘ ضیاالحق کے لیے سائبان بن گئی۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف مزاحمت ’اسلامی نظام کی تحریک‘ بن گئی۔ افغان جنگ میں ہم نے مجاہدین کو طالبان اور طالبان کو خوارج میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ گرینڈ مارچ کسی قوم کے سیاسی شعور کا ابتذال ہے۔

1995ءکے ابتدائی ماہ تھے۔ ہم چند نوجوان تاریخ کی ناگزیر بھول بھلیوں سے بے نیاز اکیسویں صدی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ہماری نسل نے ہیلسنکی کانفرنس کے اعلانات پر یقین کیا تھا۔ وارسا پیکٹ تحلیل ہوتے دیکھا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کا مشاہدہ کیا تھا۔ لاطینی امریکا میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ آمریتوں کو یکے بعد دیگرے منہدم ہوتے دیکھا تھا۔ یورپین یونین کی صورت میں قومی سرحدوں کو بے معنی ہوتے دیکھا تھا۔ تیننامن چوک میں خون خرابے سے چشم پوشی کرتے ہوئے سرد جنگ کے بعد جمہوری ابھار سے امیدیں باندھی تھیں۔خود ہمارے ملک میں چار اژدھے پھنکار رہے تھے۔ فرقہ وارانہ تنظیمیں، جہادی گروہ، لسانی تقسیم اور افغان جنگ کے پس ارتعاشات۔ گویا شراکت اقتدار کی چھتر چھایہ میں انتہا پسندی کی فصل پک رہی تھی اور سیاسی جماعتیں اس ’گرینڈ مارچ‘ کا حصہ تھیں۔

اکیسویں صدی سے ہماری امیدوں کا یہ عالم تھا کہ ہم نے ’تھیٹر 21‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ لاہور میں گلبرگ کی مین سڑک پر بلند و بالا عمارتوں کے عقب میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ قائم تھا۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مبارک علی نے یہاں اپنی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ ہمیں ڈرامے کی الف ب کا علم نہیں تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد ، شاہد محمود ندیم اور منو بھائی نے ہمیں کچھ لیکچر دیے اور ہم نے مہاراشٹرا کے ڈرامہ نگار وجے ٹنڈولکر کا کھیل ’خاموش ! عدالت جاری ہے‘کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ انتظار حسین صاحب نے کسی قدر بے دلی سے اس کھیل کا ترجمہ کیا۔ اس مہم جوئی کا انجام یہ ہوا کہ ٹیلی ویژن کی ایک کندہ ناتراش اداکارہ اور ایک مبتذل شاعر کی کھینچا تانی میں یہ کھیل اور ہمارا تھیٹر معدوم ہو گئے۔ یہ تمثیل بذات خود اک علامتی حکایت ہے جس میں متوسط طبقے کی منافقت، عورتوں سے ناانصافی اور روایت کے جبر کا قصہ تھا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ٹنڈولکر کا یہ کھیل سوئس مصنف Friedrich Dürrenmattکے 1956 میں لکھے ناول A Dangerous Gameسے ماخوذ ہے۔ اس طالب علم کا خیال ہے کہ ٹنڈولکر کے کھیل پر لیوگی پراندیلو کے ڈرامے Six Characters in Search of an Author کے اثرات زیادہ واضح ہیں۔ شاید آپ کو 1972میں بننے والی مووی Cabaret کا وہ منظر یاد ہو جہاں اسٹیج پر نیم واہیات حرکات کے پس منظر میں بڑے پردے پر سیاسی اور جنسی تشدد کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بڑے فن میں منظر اور پس منظر کا یہی مکالمہ بیان ہوتا ہے۔ آمریت بھی کسی وقتی تمثیل سے کم نہیں ہوتی۔ فرق یہ ہے کہ آمریت میں پس منظر کا تشدد حقیقی اور کہیں زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔

جنوری 2009کو اقوام متحدہ کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل کے محرکات جاننے کے لیے پاکستان آنے والے چلی کے ماہر قانون HERALDO MUÑOZ نے اپنی کتاب Getting Away With Murderمیں لکھا کہ ’بینظیر کے قتل میں سارا گائوں ملوث تھا‘۔ انہوں نے لکھا کہ ’القاعدہ نے حکم دیا، پاکستانی طالبان نے حملے پر عمل درآمد کیا۔ ممکنہ طور پر مقتدرہ کے عناصر نے حوصلہ افزائی کی، مشرف حکومت نے مطلوبہ سیکورٹی فراہم نہ کر کے جرم میں مدد دی، مقامی پولیس حکام نے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، بینظیر کی اپنی سیکورٹی ٹیم غفلت کی مرتکب ہوئی اور پاکستان کے بیشتر سیاست دانوں نے اس قتل کی مکمل تحقیقات کرنے کا مطالبہ ہی نہیں کیا‘۔ بینظیر کی شہادت سے ’پروجیکٹ عمران‘ صحیح معنوں میں شروع ہوا۔ بینظیر کے قتل کے ذمہ دار بچ نکلے۔ 9 مئی 2023کے مجرموں کو سزائیں مل رہی ہیں۔ اس واقعاتی خلیج ہی میں پاکستان کی تمثیل کا المیہ مخفی ہے۔ اس کھیل کے کردار ابھی اپنے مصنف کی تلاش میں ہیں۔ Friedrich Dürrenmatt کے مرکزی کردار جج نے ابھی اپنا فیصلہ نہیں لکھا لیکن حقیقی مجرم اپنا جرم جانتے ہیں۔ تاریخ کی عدالت میں سماعت جاری ہے اور قوم کے لیے خاموش رہنے کا تادم توسیع حکم نافذ ہے۔

تازہ ترین