• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانی کارسن کا شمار امریکہ کے بہترین مزاحیہ اداکاروں میں ہوتا ہے، اُس نے تیس برس تک ٹی وی پر دی ٹونائٹ شو پروگرام کی میزبانی کی اور چھ ایمی ایوارڈ حاصل کیے۔ اِس پروگرام میں مزاح پیدا کرنے کیلئے جانی کارسن کے پاس بائیس معاون ہوتے تھے جو تحقیق کرکے اُسے چٹکلے، لطیفے اور واقعات گھڑ کر پیش کرتے تھے، اِس پروگرام کا باقاعدہ اسکرپٹ ہوتا تھا اور بائیس عالی دماغ معاون جانی کارسن کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھتے تھے تب کہیں جا کر پروگرام میں ایک قہقہہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی شو میں وہ تمام بائیس معاون پیش بھی کیے گئے تھے۔ اِن باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ کارسن کو یہ تمام سہولتیں پہلے دن سے مُیسّر تھیں، ظاہر ہے کہ اُس میں ٹیلنٹ تھا تو اُس کا شو مسلسل تیس سال تک ٹی وی پر نشر ہوتا رہا! دوسری طرف ہمارے مزاحیہ اداکاروں کے پاس معاون تو دور کی بات ڈھنگ کا اسکرپٹ بھی نہیں ہوتا تھا اور وہ محض اپنے خداداد ٹیلنٹ کی بنیاد پر کئی کئی گھنٹے تک حاضرین کو ہنساتے تھے۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ یہ دعویٰ کر چکا ہوں کہ جس اچھوتی نوعیت کا یہ ٹیلنٹ مغربی پنجاب کے اِن فنکاروں کے پاس تھا اُس کی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔

یہ باتیں اب قِصّہ پارینہ بن چکی ہیں۔ معاشرہ چونکہ تنَزّلی کا شکار ہے اِس لیے دیگر شعبوں کی طرح مزاح بھی زوال پذیر ہے۔ جسے ہم پنجابی تھیٹر کہتے تھے وہاں اب مجرا ہوتا ہے اور مجرے کے وقفے کے دوران فحش جُگتیں۔ جبکہ دوسری جانب دنیا میں مزاح کی نِت نئی جہتیں تلاش کی جا رہی ہیں جو اُس روایتی مزاح سے، جس میں مزاحیہ اداکار مضحکہ شکلیں بنا کر لوگوں کو ہنساتا تھے، بالکل مختلف ہے۔ مثلاًایک مزاحیہ ویڈیو میری نظر سے گزری جس میں دو لوگ آپس میں یوں گفتگو کر رہے ہیں کہ ایک شخص خود کو نفسیات دان سمجھتا ہے اور دوسرے کو ذہنی مریض جبکہ دوسرا شخص بھی خود کو نفسیات دان ہی سمجھتا ہے اور پہلے شخص کو ذہنی مریض۔ اِس صورتحال میں وہ دونوں ایسا اعلیٰ درجے کا مزاح تخلیق کرتے ہیں کہ بندہ اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ خوبصورتی اِس خاکے میں یہ ہے کہ نفسیات کے سنجیدہ نوعیت کے سوالات کی مدد سے مزاح کشید کیا گیا ہے، یہ تکنیک ہمارے ہاں ناپید ہے۔ اسی نوعیت کا ایک پرانا خاکہ یاد آ گیا جس میں فلسفیوں کا فُٹ بال میچ دکھایا جاتا ہے جو یونانی اور جرمن فلاسفہ کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ اِس میچ کی کمنٹری مزاح کا شاہکار ہے، یو ٹیوب پر موجود ہے، ایک نمونہ ملاحظہ ہو:” جرمن ٹیم اپنے کپتان ہیگل کی قیادت میں میدان میں داخل ہو رہی ہے، ٹیم میں لائبنیز، شوپنہار، نیطشے، وٹگنسٹائن اور ہائیڈگر شامل ہیں، اور یہ رہی یونانی ٹیم جس میں افلاطون ہے، سقراط بلاشبہ اِن کا اسٹار کھلاڑی ہے، ارسطو اِس وقت بہت فارم میں ہے، ٹیم میں حیران کُن اضافہ ارشمیدس کا ہے۔ میچ کا ریفری کنفیوسش ہے جس کے ساتھ دو لائن مین بھی ہیں، سینٹ آگسٹائن اور تھامس اکوائنس....‘‘ میچ شروع ہونے پر کوئی بھی فلسفی فُٹ بال کو کِک نہیں لگاتا بلکہ آپس میں گفتگو اور سوچ بچار شروع کر دیتے ہیں، دلچسپ کمنٹری بھی ساتھ ساتھ جاری رہتی ہے، ریفری نیطشے کو سُرخ کارڈ دکھاتا ہے اور کمنٹیٹر کہتا ہے کہ چار میچوں میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ نیطشے کو تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر کارل مارکس کو دکھاتے ہیں جو میدان کے باہر سُرخ ٹریک سوٹ پہن کر ورزِش کر رہا ہے اور کمنٹیٹر کہتا ہے کہ اسے وٹگنسٹائن کی جگہ بھیجا جا رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا مارکس جرمن ٹیم کو کچھ سہارا دے سکے گا یا نہیں اور یقیناً نہیں۔ اِس دوران ارشمیدس گیند کو کِک لگا کر سقراط کو دیتا ہے اور وہ یونانی ٹیم کے لیے گول کر دیتا ہے، کارل مارکس کہتا ہے کہ یہ آف سائیڈ ہے مگر کنفیوشس نہیں مانتا۔ یہ ایک ایسا خاکہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، اِس میں فلسفیوں کے مشہور اقوال اور اُن کی عادات کو بنیاد بنا کر نہایت اچھوتے انداز میں مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ آج کل اِسٹینڈ اَپ کامیڈی بہت مقبول ہے لیکن بد قسمتی سے اِس میں بھی ہم کوئی خاص نام پیدا نہیں کر پا رہے جبکہ دوسری طرف انڈیا میں اِس قسم کے کامیڈینز اب کافی تعداد میں ہیں جن میں سے کئی تو ایسے ہیں جن کے لاکھوں پرستار ہیں اور وہ دنیا بھر میں اپنے کامیڈی شوز کرتے ہیں۔ اِن کا سُرخیل امیت ٹنڈن ہے، دوسرے کامیڈینز کے برعکس یہ نوجوان فحش گوئی نہیں کرتا بلکہ اِس کی باتیں عموماً متوسط طبقے کے مسائل سے متعلق ہوتی ہیں، مثلاً مہنگے نائی کے پاس جاؤ تو وہ کیا کرتا ہے، فائیو اسٹار ہوٹل والے کس طرح پیسے اینٹھتے ہیں، ہندوستانی چھٹیاں کیسے گزارتے ہیں، دیسی والدین بچوں کی تربیت کیسے کرتے ہیں، وغیرہ۔ انڈیا میں اِسٹینڈ اَپ کامیڈی کرنے والے یہ لوگ بہت کامیاب ہیں جبکہ ہمارے ہاں جو اِکا دُکا نوجوان یہ کام کر رہے ہیں انہیں ابھی تک زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ اُن کی کامیڈی میں وہ کاٹ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ اِس کے علاوہ اِن نوجوانوں کا کامیڈی کا انداز بھی اچھوتا نہیں ہے، مزاح صرف جملوں سے ہی نہیں بلکہ جملے ادا کرنے کے انداز سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ انسٹاگرام پہ ایک نوجوان سکندر نواز نے قدرے منفرد انداز اپنایا ہے جو ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے، اِس نوجوان میں ٹیلنٹ ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مزاحیہ اداکار جب تک خود کو اداکار نہ لکھیں تب تک انہیں کامیڈین نہیں سمجھنا چاہیے، یہ بات درست نہیں، ہمارے ہاں روایتی کامیڈینز کے علاوہ مولوی حضرات کی بھی پوری ایک کھیپ موجود ہے جو بہترین مزاح تخلیق کر رہی ہے، اِن کے حلیے سے دھوکہ مت کھائیں، صرف اِن کی باتیں سنیں، آپ کو اندازہ ہو گا کہ اِن سب کے اندر ایک امانت چَن چھپا بیٹھا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اعلیٰ پائے کے مزاح کی ہم بات کر رہے ہیں، کیا پاکستان میں اُس کی پذیرائی بھی ہو گی یا نہیں؟ میری رائے میں اِس قسم کے ذہانت سے لبریز اعلیٰ نوعیت کے مزاح کی گنجائش موجود ہے جس میں سنجیدہ موضوعات کو بنیاد بنا کر مزاح کشید کیا جاتا ہے، فی الوقت چونکہ یہ کام نہیں ہو رہا اِس لیے انور مقصود کے پھکڑ پن کو اِس کا متبادل سمجھ لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مزاح کا میدان خالی ہے، پنجابی تھیٹر کا نوحہ ہم پڑھ چکے، روایتی مزاح میں امیت ٹنڈن کی طرح جدت پیدا کیے بغیر اب کام نہیں چلتا، سو اِن حالات میں اگر ہمارے نوجوان کچھ محنت کریں اور نئے موضوعات پر طبع آزمائی کریں تو انہیں ضرور پذیرائی ملے گی، تھوڑا بولڈ ہونےمیں بھی کوئی حرج نہیں، تاہم خیال رہے کہ بولڈ ہونے اور فحش گفتگو کرنے میں باریک سا فرق ہوتا ہے جس کو سمجھنا چاہیے۔ ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو، تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

تازہ ترین