اسکول سے کالج میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم بڑے ہوگئے ہیں۔ اس وقت کالج اساتذہ کی بصیرت افروز اور کارآمد باتیں ہمارے سر سے گزر جاتی تھیں لیکن اب ان کی باتیں یاد آتی ہیں کیونکہ وہ سچ ثابت ہو رہی ہیں۔
ہمارے ایک پروفیسرصاحب کہا کرتے تھے کہ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کو چین نہیںلینے دیں گے اور ان کے وسائل پر قبضہ کریں گے۔ ہمارے پروفیسر صاحب کی یہ بات ہمارے کالج سے نکلتے ہی سچ ثابت ہونا شروع ہوگئی۔ جب صدام حسین ایران کے خلاف میدان میں اترا تو دانش وروں نے کہنا شروع کردیا کہ اس جنگ کافائدہ سوائے امریکا اور اسرائیل کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔ دو مسلم ممالک شط العرب کے تنازعے پر باہم دست وگریبان رہے۔ پھر ایک روز ہم نے مسلمان ممالک کی آپسی لڑائی کا انجام ٹی وی اسکرین پر دیکھا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے تہوار عید الاضحی کے دن صدام حسین کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ غالب کے کئی اشعار کی تشریح جو شارحین غالب سے تشنہ رہ گئی تھی وہ عراق المیے کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔؎
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں داداۂ ہوئے سرِرہگزار تھا
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ’’تیرے سر کی قسم ہے ہم کو‘‘
عراق ٹریجنڈی پر صحافت بھی ہوئی اور شاعری بھی ہوئی لیکن اس کا ثمر کیا برآمد ہوا۔ کیا مسلمانوں نے اتحاد کا سبق سیکھا؟اس تمہید طولانی کا مقصد شام کی ٹریجنڈی ہے۔ اسرائیل غزہ کے نہتے مسلمانوں، جن میں مظلوم خواتین اور بچے زیادہ شامل ہیں، کا بے دردی و بے رحمی سے خون بہا رہا ہے۔ پوری دنیا کے رحم دل انسانوں کی اپیلیں ایک طرف اور بدمعاشی، بدمست، فرعون سرشت، نیتن یاہو کی فرعونیت و رعونت ایک طرف۔ حزب اللہ نے جس طرح اسرائیلی نمرود و تکبر کو چیلنج کیا ہے، اس کا تذکرہ آبِ زر سے رقم ہوگا۔ جب حزب اللہ اسرائیل کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوئی تو اسرائیل امریکا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ کوئی اور گیم کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے لبنان کے محاذ پر جنگ بند کرنے کا معاہدہ کیا اور فوراً شام کو خالہ جی کا گھر سمجھ کر گھس گیا۔ شام کئی برس خانہ جنگی کا شکار رہااور شکاری امریکا اور اسرائیل ہی تھے۔ بشار الاسد روس کی مداخلت سے کئی سال بچا رہا لیکن اسرائیل نے باغیوں کی اس انداز سے پشت پناہی کی کہ اس کی شیطانی چال بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کو سمجھ ہی میں نہ آسکی۔
شام میں عراق والا منظر دہرایا گیا جس طرح صدام حسین کے مجسموں کو زمین بوس کیا گیا تھا اسی طرح بشار الاسد اور اس کے والد حافظ الاسد کے مجسمے گرائے گئے۔ یہاں بشار الاسد کا دفاع مقصود نہیں لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ امریکا بہادر اسرائیل کے آس پاس واقع مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے اسرائیل کا غلام بنانا چاہتا ہے۔ جس طرح حماس اور حزب اللہ قلیل ترین وسائل کے ساتھ اپنی مخالف طاقتوں سے لڑرہے تھے ہم سمجھ رہے تھے کہ اسرائیل مظلوم مسلمانوں کا خون بہانا بند کر دے گا۔ اردگان صاحب کے منہ سے صرف ڈری ہوئی مذمت نکلتی تھی۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک سہمےرہے۔ صرف لڑنا تو درکنار جنگ بندی بھی نہ کرا سکے۔
ہم سوچتے ہیں کہ افغانستان میں افغانیوں نے کسی غیر ملکی تسلط اور قبضے کو تسلیم نہیں کیا تو اس دنیا میں اسرائیل کی بدمعاشی کا کوئی حل ہے۔ اسرائیل کی بدمعاشی کا طریقہ دیکھیں کہ وہ سب سے پہلے آبادیوں پر بم برساتا ہے۔ اسرائیل نے تمام مسلمانوں پر واضح کردیا ہے کہ اگر تم میں دم خم ہے تو میرا میدان میں آ کر مقابلہ کرو۔ شام میں اس نے گولان کی بلند چوٹیوں پر قبضہ کرتے ہوئے شام کا کتنا ہی علاقہ اپنے زیر تسلط لے لیا ہے تو کیا اسرائیل کے عزائم سمجھنے میں اب کوئی کسر باقی رہ گئی ہے۔ ترکی کے اردوان کی عقل کا اندازہ کیجیے کہ اس نے کردوں کے ساتھ جنگ کرنے کا کون سا موقع چنا ہے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
اسرائیل کی پانچوں پک گئی ہیں۔ اہل غزہ کے خون کی ارزانی سے توجہ ہٹا کر شام میں نئی بساط تزک و احتشام کے ساتھ بچھا دی گئی ہے۔ ایران اور سعودی عرب چین کی بدولت متحد ہوئے تھے۔ اسرائیل نے شام میں داخل ہو کر شام کی دفاعی تنصیبات، اسلحہ گوداموں، جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور دیگر دفاعی اثاثوں کو ریکارڈ بم باری کے ساتھ تباہ کیا۔ شام کی فوج ایک گولی بھی نہ چلا سکی۔ سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے اور وہ یہی چاہتا تھا اگر ایران کے پاس میزائل تھے تو وہ کب چلانے تھے؟اسرائیل تو ایران کے خلاف شام میں پوزیشن سنبھال چکا ہے۔ اگر سب مسلم ممالک اسرائیل کو غزہ میں روکتے تو آج سب محفوظ ہوتے۔
جس سفاکیت سے اسرائیل نے مسلمان بچوں اور خواتین کو قتل کیا ہے اس کا ایک ہی حل ہے کہ سب مسلم ممالک اکٹھے ہو جائیں اور شام جہاں یہ جھوٹی، جعلی اور سازشی فتح کے نشہ میں چُور دندناتا پھر رہا ہے کو میدان جہاد بنا دیں۔ اسرائیل کسی مسلمان کو اپنے سامنے زندہ دیکھنا نہیں چاہتا، مذمتیں اور وہ بھی ڈری اور سہمی ہوئیں ، ان سے اسرائیل شام خالی نہیں کرے گا۔ ہم قبلہ اول لیتے لیتے اس کی جھولی میں مزید علاقے ڈال رہے ہیں۔
اسرائیل مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس لگڑبگڑ کی ہڈیاں تک توڑ ڈالنے کے لئے اسلامی شیروں کو میدان میں اتر جانا چاہیے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہوگا۔