27دسمبر2007پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاہ دن ہے جب بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد اسلام آباد واپس جاتے ہوئے لیاقت روڈ پر شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی موت کو یقینی بنانے کیلئے ان کی بلٹ پروف گاڑی کو نہ صرف بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی بلکہ قریبی عمارت سے بے نظیر بھٹو کو سنائپر نے نشانہ بھی بنایا، جب کہ ان کی گاڑی کے قریب ایک شخص کو پستول اٹھائے دیکھا گیا 17سال گزرنے کے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی ان کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے کیفر کردار تک پہنچ سکے۔ یو این او کی تحقیقاتی ٹیم بھی آئی لیکن بے نظیر بھٹو کا قتل سربستہ راز ہی رہا بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں استغاثہ کا وکیل بھی پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا اس قتل سے جڑے کچھ کردار بھی پر اسرار طور پر قتل کر دئیے گئے۔4 ا پریل1979ء کو بے نظیر بھٹو کے والد وسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو لیاقت باغ سے 6کلو میٹر دور ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں نواب احمد خان قصوری کے قتل میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ یہ وہی کمپنی باغ (لیاقت باغ) ہے جہاں 16اکتوبر 1951کو ’’سٹنگ پرائم منسٹر‘‘ لیاقت علی خان کو جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ میں زمانہ طالب علمی سے لیاقت باغ میں اپوزیشن کے بڑے بڑے جلسے دیکھ رہا ہوں۔ لیاقت باغ میں پاکستان کے ہر بڑے لیڈر نے جلسوں سے خطاب کیا ہے یہی وہ باغ ہے جس میں دو وزرائے اعظم کو قتل کیا گیا اسی باغ میں ذوالفقار علی بھٹو دور میں اپوزیشن کے جلسوں پر گولی چلائی گئی اور بے گناہ سیاسی کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ میں ان واقعات کا بھی عینی شاہد ہوں جب میری آنکھوں کے سامنے یو ڈی ایف کے کارکنوں کو پیپلز پارٹی کےمشتعل کارکنوں کے ہاتھوں تہ تیغ ہوتے دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے بعد بے نظیر بھٹو کم و بیش تین عشروں تک پیپلز پارٹی کی قائد رہیں 27دسمبر 2007ء کو ان کے سیاسی منظر سے ہٹنے پر پرویز مشرف کا درد سر ختم ہو گیا۔ پیپلز پارٹی میں بظاہر بلاول بھٹو کی قیادت کا دور شروع ہو گیا لیکن عملاً پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ آ گئی جو ان کے دوبار صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود ان ہی کے پاس ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 45ویں اور بے نظیر بھٹو کی 17ویں برسی کے باوجود آج بھی ان کے مزار پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کا مرکز ہیں ہر سال ہزاروں لوگ ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے لاڑکانہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ پیپلز پارٹی کا سائز کم ہو گیا ہے لیکن وہ آج بھی سندھ میں پوری قوت سے قائم ہے۔ میں کبھی پیپلز پارٹی کا حامی نہیں رہا لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے عام کارکن تک تعلق قائم ہے۔ میں نے1968ء میں ایوب خان کے خلاف تحریک میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغرمال روڈ راولپنڈی کی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے حصہ لیا تھا 7نومبر 1968ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے ہماری اسٹوڈنٹس یونین کا حلف لینا تھا ایوب آمریت میں یہ انقلابی فیصلہ تھا لیکن 6نومبر 1968ء کو گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کے طالب علم عبد الحمید کی ہلاکت سے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو گئی جو ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے تک جاری رہی۔ اس دوران میری ذوالفقار علی بھٹو سے ایک دو ملاقاتیں ہوئیں لیکن میں ان کے نظریات کا قائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کارکن نہ بن سکا۔ البتہ بے نظیر بھٹو سے وزیر اعظم اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد تین چار ملاقاتوں کا موقع ملا اور ان کے انٹرویوز کیے۔ میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب (جو اب نیشنل پریس کلب کہلاتا ہے) کا مسلسل 16بار صدر رہا۔ میں نے دوبار بے نظیر بھٹو کو میٹ دی پریس پروگرام میں مدعو کیا پہلی بار جب 6اگست 1990میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی اور دوسری بار جب 5 نومبر 1996میں ان کی حکومت برطرف کر دی گئی لیکن انہوں نے دعوت قبول کرنے کے باوجود میٹ دی پریس پروگرام میں شرکت نہیں کی۔ لندن میں جولائی 2007ء میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی کوریج کے لئے گیا تو سینئر صحافی آصف بٹ کے ہمراہ بے نظیر بھٹو کا انٹرویو کیا اس ملاقات میں ناہید خان نے اہم کردار ادا کیا بے نظیر بھٹو کا ایک گھنٹہ سے زائد انٹرویو ٹیلی کاسٹ تو نہ ہوا البتہ ایک قومی اخبار کی زینت بنا۔ انٹرویو میں بے نظیر بھٹو نے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ سال رواں کے اواخر میں پاکستان میں ہوں گی لیکن مجھے ان کے پاکستان واپس آنے کے اعلان پر یقین نہیں آیا میرا خیال تھا کہ وہ پاکستان واپس جانے کا اعلان کر کے محض پرویز مشرف کو دبائو میں رکھنا چاہتی ہیں پرویز مشرف نے ان کو دبئی مذاکرات میں مشروط این آر او دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو 18اکتوبر 2007کو پاکستان واپس آ گئیں کراچی میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا لیکن اسی رات ان کے استقبالی جلوس میں بم دھماکہ ہو گیا، ان کے متعدد کارکن اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
بے نظیر بھٹو نے دہشت گردی کی واردات کے بعد حوصلہ نہیں ہارا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی 27دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جلسے سے قبل ان سے افغان صدر حامد کرزئی نے ملاقات میں ان کی جان کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر لیاقت باغ کے جلسہ میں نہ جانے کا مشورہ مسترد کر دیا۔ موت نے تو آنا ہی ہے تو وہ گھر کی سیڑھیوں سے گر کر بھی آ سکتی ہے۔ میں بے نظیر بھٹو کو ایک بہادر سیاست دان سمجھتا ہوں جو پرویز مشرف کی دھمکیوں کی پروا کئے بغیر پاکستان آ گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی سے پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔