ہمارے خاندان کی ایک شاخ، بہت پہلے جالندھر سے رحیم یار خان کی تحصیل ، صادق آباد منتقل ہوئی۔ مضبوط مذہبی رجحان کے ناطے ایک رشتہ دارد ینی مدرسے کے انچارج بنے۔ ہر سال درس گاہ کے لیے عطیات وصول کرنے ، دورے پر نکلتے تو ہمارے پاس عارف والا شہر آتے ۔ اُن کی آمد پر گھر کا ماحول بدل جاتا ۔ شفیق انسان تھے۔ محبت اور اپنائیت کی مہربان چمک سے آنکھیں روشن رہتیں۔ ایوب خان کی حکومت تھی ۔ وہ ان کے بنائے عائلی قوانین کو غیر اسلامی گردانتے۔ اپنے قیام کے دوران، مذہبی مسائل کی گتھیاں سلجھانے پر ہمارے گھرانے اور کبھی کبھی ہمسایوں کی مدد فرماتے۔ میں اُن دنوں ٹاؤن کمیٹی ہائی اسکول، عارف والا میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ذات برادری اور فرقہ بندی کے بارےمیں شہر کی مساجد سے شروع ہونے والی بحث ، نو عمر طالب علموں کی سوچ پر اثر انداز ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ اُن سےپوچھا’’کیا ہمارے رسول اللہ ،حضرت محمد ﷺ نور تھے یابشر؟‘‘اس سوال کا جواب اُنہوں نے اپنے مسلکی نقطہ نظر کے حوالے سے دیا۔ البتہ اس بات پر خوش ہوئے کہ اسکول کے نوجوان طالب علم مذہبی معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ چاہتے تھے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں بچوں کو دینیات کی بجائے صرف دین اسلام کی تعلیم دی جائے۔
ان سے گفتگو کے دوران علم ہوا کہ دینی مدرسے میں سخت ڈسپلن اور اساتذہ کی مار پیٹ سے گھبرا کر نئے طالب علم فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل کو روکنے کیلئے مدرسے کی انتظامیہ کبھی کبھار سخت قدم اٹھاتی ہے جس میں بچے کو زنجیر سے باندھنا بھی شامل ہے۔ میری حیرت دیکھ کر انہوں نے وضاحت کی کہ جب والدین اپنے لخت جگر کی ذمہ داری ہمیں سونپتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنی حفاظت میں رکھیں۔ ایوب خان کا دور حکومت اپنے عروج پر تھا۔ نصابی کتب، انقلاب اکتوبر کے فیض و برکت سے روشن تھیں ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد ، نئے سبق شامل ہوئے۔ نشان حیدر پانے والوں کا مکمل تعارف ذہن نشین کروایا گیا۔ فیلڈ مارشل کے حالاتِ زندگی تو پہلے سے شامل تھے ۔ اب بری اور فضائی فوج کے سربراہوں کی رنگین تصاویر اور تعارف بھی کتابوں کا حصہ بنا۔
کچھ برس بعد ، ہمارے شعور نے آنکھیں کھولیں تو احساس ہوا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی طاقتوں کے درمیان رساکشی جاری ہے۔ ایک کی تمنا ہے کہ ملک عسکری ریاست بنے۔ دوسرے کی خواہش ہے کہ اسے مذہبی ریاست میں ڈھال دیا جائے۔یہ کشمکش کئی برس جاری رہنے کے بعد، ضیاء الحق کے دور میں ختم ہوئی ۔ مشترکہ مفاد کی کشش نے طاقت کے دونوں دھاروں کو یکجا کر دیا۔ اس عمل میں بانی پاکستان کا تصور دُھندلا گیا۔ ایک روشن خیال اور فلاحی مملکت کا خواب ہماری آنکھوں سے دور ہوتا گیا۔ ایسے قوانین معرض وجود میں آئے جن کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا۔ قاتلوں کو چھوٹ ملنے لگی، گناہ گار سزاؤں سے بچے اور نا کردہ گناہوں پر اقلیتوں کی زندگی تنگ ہوگئی۔ ضیاء الحق کا دور گزرے بہت دیر ہو چکی ۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا۔ بتدریج لاغر ہوتی ہوئی ریاست میں اب اتنی ہمت بھی نہیں کہ ان قوانین کے سو دوزیاں کا حساب کر سکے۔
افغانستان پر سوویت قبضے اور انقلاب ایران کے بعد، اسلامی دنیا میں تبدیلی آئی۔ پاکستان میں مذہبی مدارس کی نئی فصلیںبوئی گئیں ۔ سماج میں فرقہ واریت کی خلیج گہری ہوئی۔ اس گہرائی کا انداز ہ اس وقت ہوا جب راقم پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین کی ذمہ داری نبھا رہا تھا ۔ جیل خانوں میں قیدیوں کو اسلامی تعلیم دینے کیلئے، ہوم ڈیپارٹمنٹ نے آزمائشی طور پر ایک موزوں امیدوار کے انتخاب کی فرمائش کی۔ ہدایت تھی کہ کامیاب امید وار فرقہ واریت پر یقین نہ رکھتا ہو اور قیدیوں سے اُس کی گفتگو کسی فساد کا باعث نہ بنے۔ معاملہ حساس تھا ۔ اس مشکل مرحلے سےگزرنے کی داستان پھر سہی۔
آج تو مجھے فیض احمد فیض کی نظم ” دعا ‘‘یاد آ رہی ہے۔ اتحاد تنظیم المدارس اور حکومت پاکستان کے درمیان مذہبی اسکولوں کی رجسٹریشن بارے اختلاف ہے۔ پاکستانی شہریوں کو غرض نہیں کہ دینی مدارس، کس ادارے سے منسلک کئے جائیں ۔ البتہ انہیں احساس ہے کہ ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ دینی مسائل پر عوام کی رہنمائی کریں گے۔ سماج کو دینی حوالے سے نیک و بد کی تمیز سکھائیں گے۔ مساجد میں امامت فرمائیں گے اور مقتدیوں کو اپنے خطبات سے فیض یاب بھی۔ کیا عوام یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ حصول تعلیم کے دوران، ان طلباء کو تلقین کی جائے کہ وہ سماجی برائیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں ؟ عوام کو ذخیرہ اندوزی، گرانی اور ملاوٹ جیسے قبیح جرائم کے مرتکب افراد سے اجتناب کرنے پر راغب کریں ۔ کیا عوام یہ جائز توقع رکھیں کہ فارغ التحصیل طلبہ عورتوں کو تعلیم دینے کی حمایت کریں گے؟ عوام کو بتائیں کہ پولیو کے قطرے پلانے والے اُن کے دشمن نہیں بلکہ محسن ہیں۔ کیا اُن کے وعظ میں شامل ہوگا کہ خودکش بمبار بننے کی ترغیب دینے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟ کیا وہ عوام کو نصیحت کریں گے کہ ٹیکس چوری ، رشوت اور نا جائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت، عمرہ کرنے یا مساجد کو چندہ دینے سے پاک صاف نہیں ہو سکتی؟
سرکاری ملازمت کے دوران، راقم کو جناب حنیف جالندھری اور مفتی منیب الرحمان جیسی نیک شخصیات سے سرسری طور پر ملاقات کا موقع ملا۔ مولانا فضل الرحمان سے دو دفعہ تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ کشمیر کمیٹی میں اور دوسری دفعہ چشمہ رائٹ بینک کینال پر بریفنگ کے دوران ۔ مولانا ایک زیرک سیاستدان اور عالم دین ہیں۔ اس ناطے مجھے مکمل یقین ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم کے حوالے سے وہ عوام کی جائز توقعات پوری کرینگے۔ ہماری بہترین خواہشات ان کیساتھ ہیں۔ ’’آئیے ہاتھ اُٹھا ئیں ہم بھی ، ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں‘‘۔