• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیسے ہیں آپ سب۔ ایک اور انیٹ گر گئی دیوار حیات سے۔زمینی چاک کی گردشوں میں دکھ سکھ بانٹتا ’’2024‘‘ ماضی کا حصہ بن گیا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ تمام آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔ نہیں منزل تھی کوئی سامنے اس بار بھی۔ 

مجبور لوگ آگ کے دریا پار کرتے رہے اور بے گناہ بے جرم آبادیوں میں لہو کی بارش زندہ جسم و جاں کو جلاتی رہی۔ دنیا کے منظر نامے پر فلسطین، افغانستان، کشمیر، لبنان بلوچستان اور پارہ چنار پر ہونے والے آہن پوشوں کے دہشت گرد سنگین مظالم ہمارے چاروں طرف حصار کیے اپنی جارحیت سے انسانی اقدار کو ریزہ ریزہ کرتے رہے، ایسا لگا انسان رہے نہ انسانیت۔ لیکن کوئی کچھ نہ کرسکا سب اپنے میں مگن رہے۔ وطن عزیز میں اندھیروں کا موسم طاری رہا،قرض کی مے پیتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ چلو گمان کی حد سے گزر کے دیکھتے ہیں۔

سال گزشتہ کے کون سے خوش کن لمحات یاد کریں ماسوائے اس لمحے کے جب ڈھول کی تھاپ پر ’’انتخابات‘‘ کا ہلہ گلہ ہوا۔ نتیجے میں تاریخ کے اسٹیج پر سارا سال جو تماشا نظر آیا، وہ سال کے اختتام پر ایک نئی تاریخ رقم کرکے رخصت ہوگیا۔ عمل سے خالی، روح سے عاری کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان، سب کے سب آنکھیں بند کیے گردش رنگ چمن کے ایسے بھنور میں پھنسے کہ وطن عزیز ’’مسائلستان‘‘ بن گیا۔

سڑکوں پر دھماچوکڑی، ایوانوں میں شور شرابہ، عدالتوں میں وضاحتیں، دلیلں، الزام تراشیاں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، اپنی ہی بات کی نفی کرتے، قلابازیاں کھاتے عوام کے ہر دل عزیز لیڈروں، سیاست دانوں نے عوام ہی کو نظر انداز کردیا۔ بدلے کی آگ سب کچھ بُھلاتی رہی، قانون کے لفظ کھو گئے، دلیلیں گُم ہوگئیں، سیاست کی بساط بچھی رہی اور شاطر گھات میں بیٹھے رہے۔ 

اقتدار کی رسہ کشی میں عوام کو یک سر بھول گئے، جنہوں نے انہیں ایوان تک پہنچایا ۔اور عوام بھوک اور بیماری کی چٹانوں سے ٹکراتے، افلاس کی کھائی میں کبھی ٹماٹر پیاز کے تعاقب میں صبح سے شام تک خجل ہوتے رہے، پھر بھی انہیں یقین نہیں آتا کہ خواب سفر رکا ہوا ہے۔ گرچہ ہر سیاسی جماعت خواب بیچتی ہے۔ 

انتخابی منشور غریبوں کے لیے ایک خواب نگری ہوتے ہیں لیکن ان کے لیڈروں نے پہلے تو انکے سب خواب جلائے اور پھر راکھ کو تعبیر کا عنوان دیتے ہوئے ایسے ایسے بیانات داغے کہ کبھی تو محسوس ہوا کہ راتوں رات عوام کی قسمت بدل جائے گی اور کبھی اپوزیشن نے دھرنے، احتجاجی تحریک کا اعلان ایسے کیا کہ لگا اب تو تاج اچھالے جائیں گے، تخت گرائے جائیں گے، جس کے بعد ہمارے اچھے دن شروع ہوجائیں گے۔ 

لیکن جذباتی عوام کو اس کا علم نہیں تھا اور نہ اب تک ہے کہ ان کے دُلارے لیڈروں کی خواہش تو بس اتنی سی ہے کہ عوام ان کی بے دام غلام رہے، ان کے قصیدے پڑھے، مخالفین کو گالیاں دے، سوشل میڈیا پر ان کے حق میں سرگرم رہے اور اپنی ضرورتوں کو بھول جائے،ہوا بھی ایسا ہی۔ 

حکومت کبھی ایک کاغذ پر تو کبھی دوسرے پر، کبھی اس قاعدے اور کبھی اس ضابطے، کبھی 26 ویں تو کبھی 27 ویں آئینی ترمیم میں اتنا الجھی رہی کہ اس کی نظریں عوام کے مسائل، ان کی بنیادی ضروریات کی طرف گئی ہی نہیں۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ ہوجانے والی اپوزیشن یوٹرن لینے میں بھی دیر نہ کرتی۔

پھر دستور کا کوئی آرٹیکل یہ واضح نہیں کرتا کہ بے عمل حکم رانوں، اپوزیشن، سیاست دانوں کو کام کی طرف راغب کرنے کا کیا طریقہ ہے، سبز کتاب میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ عوام کے منتخب نمائندے ایوانوں میں ہر وقت ایک دوسرے کو گالیاں دیتے، الزام تراشیاں کرتے رہیں تو اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ وہ خود تو اپنی آسائشوں کی جنت میں آسودہ رہے مگر عوام کو ان کے غریب خانوں میں عزت اور شرف کے ساتھ سکون سے سانس بھی نہ لینے دیا، ان کی زندگی میں عمدگی بالکل نہیں رہی۔

ماضی، زندگی کی سمت درست کرنے والے اسباق کا خزانہ ہوتا ہے لیکن ہم ماضی کو دفن کرکے بھول جاتے ہیں کہ جانے والا اپنے پیچھے کتنی ادھوری کہانیاں چھوڑ گیا ہے۔ یہ عظیم ایٹمی ملک ایک سمندر ہے اور سمندر میں کوئی قانون، کوئی عدالت، کوئی ضابطہ نہیں ہوتا۔ 

جب ہی تو سال گزشتہ چھوٹی چھوٹی سیاسی بغاوتوں کے اٹھنے کی خبریں تواتر سے سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ زہریلا سیاسی کلچر ایسا پروان چڑھا کہ نام نہاد سیاست دانوں نے جوش خطابت میں زندگی کا سارا پرچہ ہی بدل دیا، وہ کچھ بھی کہہ دیا جو پڑھایا ہی نہیں تھا۔ 

کچھ مشکل پڑی تو لاڈلے نے وہ بھی کہا جو سکھایا ہی نہیں تھا۔ ’’لفظ‘‘ اسے نہیں کہتے کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا جائے۔ لفظ وہ ہے جو اہتمام مانگتا ہے۔ ایک لفظ اپنے پیچھے ایک پوری تہذیب اور ایک پورا تمدن لیے ہوتا ہے۔ ادائیگی سے پہلے وہ شائستگی کی شکل میں اپنی قیمت مانگتا ہے۔ لیکن سال گزشتہ میں تو ہونٹوں سے حرف نکل کر آوازوں میں ڈھل جانے تک اپنے معنی ہی کھو بیٹھے۔ 

سیاست دانوں نے جو زبان استعمال کی ،ان کے چہیتے عوام نے وہی لب و لہجہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفرت، غضب، غصے کی آگ بھڑکتی رہی۔ یہ ہمارے لیڈروں کا دیا ہوا ’’تحفہ‘‘ ہے،جس نے سیاسی تقسیم کو ضرب دے کر بڑھا دیا۔ سیاست میں اتنی شدت، اتنا غضب پہلے کب تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے بقول۔

"Nations are born in the minds of poets, they collapse in the hands of politicions"

یعنی قومیں شاعروں کے ذہن میں جنم لیتی ہیں، پھر سیاست دانوں کے ہاتھوں میں دم توڑتی ہیں۔‘‘

واقعی جب قول و فعل میں تضاد حد سے بڑھ جائے تو مسائل بحرانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور انہیں حل کرنا آسان نہیں رہتا۔ 2024ء کے بارہ ماہ یہی کچھ نظر آیا۔ سیاست و اقتدار کی بہتی گنگا میں سب ننگے ہوگئے۔ شریک اقتدار اور بٹوارے کے فارمولے پر ایک دوسرے کے ہم آواز، بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے، کب ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑتے اور کب یہ ہاتھ گریباں تک آتے ہیں، اس کا فیصلہ بھی ضرورتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ 2024ء میں بسا اوقات لگا جیسے ہمارے منتخب ایوانوں میں بھی مجبوریوں اور ضرورتوں کی منڈی سج گئی ہے۔ 

نظریات اور منشور کتابوں میں گلتے سڑتے رہے، حکومت ہر روز بائونسر پر بائونسر مارتی رہی۔ خوب ڈھول پیٹا جاتارہا کہ، معاشی حالات میں بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے۔ اسٹاک ایکسچینج تاریخی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ ڈالر کی شرح مبادلہ قابو میں ہے۔ عالمی اداروں کا اعتماد پاکستانی معشت پر بحال ہو رہا ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے معاشی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے فیصلوں میں نمایاں پیش رفت ہو رہی ہے۔ 

یہ بہت عمدہ اشارے ہیں، تاہم ایک چیز جو اس منظر نامے کو گہناتی رہی، وہ سیاسی عدم استحکام ہے، جس کے نتیجے میں ملک مسلسل آزمائشوں میں مبتلا رہا، متزلزل کیفیت نے ہر شعبے کو زبوں حالی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ انتشار پیدا کرنے کی ذمے دار مخصوص لابیاں دونوں ہاتھوں سے فوائد سمیٹنے کے عمل میں پوری طرح مصروف رہیں۔

سرکار اپنے تمام دعووں کے باوجود ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے شاید اس لیے ڈرتی رہی کہ کہیں اس کے کسی ’’درست عمل‘‘ سے اقتدار میں انتشار پیدا نہ ہوجائے۔ ایسی صورت حال میں جب کوئی بھی ادارہ قوم کی توقعات پر پورا نہ اتر رہا ہو تو بے یقینی ہی جنم لیتی ہے۔ مویشیوں کے گلے کی طرح پورے سسٹم کو ہانکا گیا اور اب تک ہانکا جارہا ہے۔

لیکن یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ عوام کا اہم مسئلہ روٹی کا ہے، مگر اس کے سارے مسائل پیٹ تک بھی محدود نہیں ہیں۔ آخر اسٹیفن کی کتاب "Not by Bread only" بے معنی تو نہیں۔ دنیا بھر میں جو احتجاج اُبھرے وہ انسانی وقار پر لگے قدغن کے خلاف تھے، غربت بھی اس کی ایک صورت ہے اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن میں اُلجھ کر عوام اس طرح جیسے کوئی مجبوری میں جیتا ہے۔ 

لیکن ہمارے حکم راں، سیاست دان کوئی یہ نہیں سوچتا سمجھتا کہ عوام اس احتجاج کا، اس تبدیلی کا حصہ بننا چاہتے ہیں جس تبدیلی میں روٹی کے ساتھ مادی اور روحانی آزادی بھی ہو۔ عوام اس وقت بہت اُداس ہوجاتے ہیں جب وہ ناقص نظام کے باعث ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے ساتھ ہر جھوٹ اور ہر فریب کا حساب چاہتے ہیں۔ 

وہ چاہتے ہیں کہ صرف کرپٹ حکم رانوں کا احتساب نہ ہو بلکہ ان حکم رانوں کا احتساب بھی ہوجنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا، جنہوں نے عوام کودھوکہ دیا، جنہوں نے اعتبار کی توہین کی، جنہوں نے سبز باغ دکھا کر انہیں صحرا میں تنہا چھوڑ دیا۔ جنہوں نے سیاست کا آغاز ہی ’’انصاف‘‘ کے نام پر کیا، وہ بھی ظلم ختم کرسکے نہ انصاف دلا سکے۔ 

اس مقولے کے مصداق کہ ’’انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دینا چاہیے‘‘ وہ 2024ء کیا پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں نظر نہیں آیا۔ منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی جاتی ہے ، سالوں بعد کہا جاتا ہے، یہ فیصلہ غلط تھا۔ 

بہرحال سال گزشتہ کا آغاز جس ہنگامہ آرائی اور سیاسی جھگڑوں کے ساتھ ہوا تھاوہ اختتام سال تک جاری رہا، سال نو میں بھی سیاسی پارہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، حکم رانوں نے اب تک اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اس سے بھی زیادہ حیرت یہ ہے کہ جلتی پر تیل ڈال کر آگ بھڑکانے والے بہت تھے لیکن برف ڈال کر آگ کو ٹھنڈا کرنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ وقت کے ساتھ ’’فیک نیوز سکہ رائج الوقت بن گئی۔

سال گزشتہ تو سیاسی بے چینی، انتشار، افراتفری اور زہریلا سیاسی کلچر کی نذر ہوگیا۔ خدا کرے یہ تلخیاں سال نو کا مقدر نہ بنیں۔ آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا پک رہا ہے۔ آج ہر پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت، بدلے کی آگ میں سلگ رہا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کئی دہائیوں سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے۔ 

ڈریں اس وقت سےجب عام لوگ اپنی جُھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہوں گے اور تمہاری طرف (حکم راں + سیاست داں) دیکھیں گے تو تم ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کی تاب نہ لاسکو گے،اب وہ وقت دور نہیں لگ رہا، وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا سوچ رہے ہیں، جس کا آغاز 2024ء میں ہوچکا ہے۔

آج پتہ نہیں کیوں حمایت علی شاعر کی ایک نظم یاد آرہی ہے اس کے چند منتخب اشعار آپ بھی پڑھیے اور سوچیے کہ 2025ء میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔

ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتداء ہے یہ

اور اب وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی

اور اپنے دل کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئے گی

یہ سرزمینِ پاک ہے یاکہ ارضِ کربلا ہے یہ

جو ہم میں جاں بہ لب ہے وہ ضمیر پوچھتا ہے یہ

ہم اپنے ہاتھ سے ہی اپنا جسم کاٹتے بھی ہیں

پھر اپنی ہی زباں سے اپنا خون چاٹتے بھی ہیں

اگر ہے یہ جنون تو جنوں کی انتہا ہے یہ

زبان و دل کے درمیاں ہمیشہ فاصلہ رہا

سیاستِ وطن کا اِک طویل سانحہ ہے یہ

خدا و دیں کے نام پر اگر یہ قوم ایک تھی

تمام اُمتوں کے درمیان سب سے نیک تھی

تو آج کیوں ہے بد ترین، کیوں بہم جدا ہے یہ

سبھی ہیں اِس نفاق کے جواز کی تلاش میں

یہ راز ہے چھپا ہوا سیاستِ معاش میں

میں ایک نوجواں کی گفتگو یہاں رقم کروں

مری تو آنکھ نم ہے، آپ کی بھی آنکھ نم کروں

وہ کہہ رہا تھا آپ کے گناہ کی سزا ہے یہ

وہ قوم جو بکھر چکی، وہ کیا سمٹ سکے گی اب؟

یہ نفرتوں کی ہے خلیج، خاک پٹ سکے گی اب؟

کہ آپ ہی کے نقشِ پا کا ایک سلسلہ ہے یہ

بزرگ اپنے فیصلوں پہ شرمسار ہوں نہ ہوں

حقیقتوں سے ان کے خواب، ہم کنار ہوں نہ ہوں

ہمیں جو آپ نے دیا وہ کاسئہ گدا ہے یہ

کہا گیا تھا یہ وطن بنا ہے سب کے واسطے

تو ہم پہ آج کیوں ہیں بند زندگی کے راستے

یہ خانہ جنگیاں نہیں، جہادِ للبقا ہے یہ

میں سوچتا ہوں، ایسے نوجواں کو کیا جواب دوں؟

نظر سے گر چکے جو خواب اُن کو کیسے آب دوں؟

میں کس طرح کہوں اُسے، فنا کا راستہ ہے یہ

ادھر ہیں اقتدار کے نشے میں چور، حکمراں

ادھر عوام کا ہجوم، منتشر، شرر فشاں

اور ان کے درمیاں وطن کا بختِ نارسا ہے یہ

یہی تو کشمکش تھی جو ہمیں دونیم کر گئی

ہر ایک خواب چھین کر ہمیں یتیم کر گئی

اوراب وطن ہے کیا، ہوا کی زد پہ اک دِیا ہے یہ

خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ

ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتدا ہے یہ

ہمارے تھوڑے کو بہت جانیے گا۔ اپنا اور اپنے ارد گرد بسنے والوں سب کا خیال رکھیے گا۔ 2025 کے تیور بھی اچھے نہیں لگ رہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ سال نو مبارک ہو۔